Rafi Badayuni

رفیع بدایونی

رفیع بدایونی کے تمام مواد

12 غزل (Ghazal)

    جب اپنی ذات کو سمجھا تو کوئی ڈر نہ رہا

    جب اپنی ذات کو سمجھا تو کوئی ڈر نہ رہا جہاں میں کوئی پرستار اہل زر نہ رہا سڑک کے کانٹے کہ جن پر لہو کے چھینٹے ہیں بتا رہے ہیں کہ اک شخص رات گھر نہ رہا بدلتی قدروں میں خون جگر سے نامۂ شوق یہ خاص طرز نگارش بھی معتبر نہ رہا نگاہ ناز ہے مایوس کس طرف جائے وہ اہل دل نہ رہے حلقۂ اثر نہ ...

    مزید پڑھیے

    خفا ہے کوئی کسی سے نہ کوئی بد ظن ہے

    خفا ہے کوئی کسی سے نہ کوئی بد ظن ہے ہر ایک شخص یہاں آپ اپنا دشمن ہے کسی غریب کا گھر ہے بس اور کیا کہئے یہ میرا دل جو سبھی آفتوں کا مسکن ہے وہ زندگی جسے خون جگر دیا میں نے وہ زندگی تو مرے نام سے بھی بد ظن ہے خدا کا شکر ہے غم کی ہواؤں میں بھی رفیعؔ چراغ زیست بہر حال آج روشن ہے

    مزید پڑھیے

    جذبۂ حق و صداقت کو دبائیں کیسے

    جذبۂ حق و صداقت کو دبائیں کیسے بات بن جائے مگر بات بنائیں کیسے اپنی روداد غم عشق سنائیں کیسے ان سے وابستہ ہیں حالات بتائیں کیسے لوگ چہرے سے سمجھ لیتے ہیں دل کی حالت اب ترا راز چھپائیں تو چھپائیں کیسے حسن تو آج بھی دامن کش دل ہے لیکن اپنے حالات کو ہم بھول بھی جائیں کیسے غیر ...

    مزید پڑھیے

    دلوں میں جذبۂ نفرت ہے کیا کیا جائے

    دلوں میں جذبۂ نفرت ہے کیا کیا جائے زباں پہ دعویٔ الفت ہے کیا کیا جائے ہزار قسم کے الزام سن کے بھی چپ ہیں ہمارا جرم شرافت ہے کیا کیا جائے نہ دشمنوں سے عداوت نہ دوستوں کا لحاظ اسی کا نام صداقت ہے کیا کیا جائے ہمارے سینے میں پتھر نہیں ہے اے لوگو ہمیں بھی پاس محبت ہے کیا کیا ...

    مزید پڑھیے

    نگاہ شوق تجھے کامیاب کس نے کیا

    نگاہ شوق تجھے کامیاب کس نے کیا دل تباہ کو خانہ خراب کس نے کیا کتاب غم کی کئی لوگ لکھ رہے تھے مگر ہمارے نام اسے انتساب کس نے کیا خموش درد کو اظہار کی زباں دے کر خود اپنے آپ کو یوں بے نقاب کس نے کیا امید تھی تو محافظ شکستہ کشتی کی یہ کیا بتائیں اسے زیر آب کس نے کیا اجارہ داریٔ قلب ...

    مزید پڑھیے

تمام