کسی خیال میں کھونے کی جستجو تو کرو
کسی خیال میں کھونے کی جستجو تو کرو
کسی سے ملنے کی پہلے کچھ آرزو تو کرو
حریف کس لئے خائف ہیں کیوں وہ بد ظن ہیں
انہیں بلاؤ کبھی ان سے گفتگو تو کرو
رہیں گے راہ میں سنگ گراں نہ دیواریں
عمل کے جذبہ کو تھوڑا سا جنگجو تو کرو
حیات دھوپ بھی ہے بادلوں کا سایہ بھی
وہ کوئی حال ہو جینے کی آرزو تو کرو
خزاں کا دور خزاں دیدہ کیوں بناتے ہو
تم ایسے دور میں کچھ ذکر رنگ و بو تو کرو
تمہاری ذات کے بھی تم سے کچھ تقاضے ہیں
ہوا ہے چاک جو دامن اسے رفو تو کرو
کچھ اور وسعت قلب و نظر ضروری ہے
کچھ اور غم بھی ابھی دل کے روبرو تو کرو
نہ کام آئے تو بہتر ہے جذبۂ نفرت
جو کام لینا ہے جذبہ کو نیک خو تو کرو