اک دبے عکس کو اوکیرہ جائے
اک دبے عکس کو اوکیرہ جائے اس کے کاندھے پہ ہاتھ پھیرا جائے توڑ کر اب شناوری کے اصول رات بھر بستروں پہ تیرا جائے چند جسموں کو دھوپ میں رکھ کر آج پرچھائیوں کو گھیرا جائے اب مری دوڑنے کی خواہش ہے فرش پہ آگ کو بکھیرا جائے
اک دبے عکس کو اوکیرہ جائے اس کے کاندھے پہ ہاتھ پھیرا جائے توڑ کر اب شناوری کے اصول رات بھر بستروں پہ تیرا جائے چند جسموں کو دھوپ میں رکھ کر آج پرچھائیوں کو گھیرا جائے اب مری دوڑنے کی خواہش ہے فرش پہ آگ کو بکھیرا جائے
اس لیے ہر طرف اندھیرا ہے اس علاقے کا چاند بوڑھا ہے اے خلاؤں میں چیخنے والے تو مری خامشی کا بیٹا ہے اے حسیں سبز جسم کے مالک یہ بتا پھول کب مہکتا ہے تم قمرؔ جس میں ڈوب جاتے ہو اس سمندر میں ایک رستہ ہے
کس کی خواہش میں جل رہا ہے بدن موم جیسا پگھل رہا ہے بدن دھیرے دھیرے بدل رہے ہیں خیال رفتہ رفتہ بدل رہا ہے بدن دکھ کے کانٹوں پہ سو رہا ہوں میں غم کے شعلوں پہ جل رہا ہے بدن حسن پر نور سے لپٹنے کو پاگلوں سا مچل رہا ہے بدن سیج پہ کھل رہے ہیں وصل کے پھول رات پہ عطر مل رہا ہے بدن صبح ...
بلند و پست کو ہموار کر کے آیا ہوں میں آسماں پہ زمیں سے اتر کے آیا ہوں ہزار جسم کے دریا تھے میری راہوں میں نہ جانے کتنے بھنور پار کر کے آیا ہوں وہ اک مذاق جسے لوگ عشق کہتے ہیں میں اس مذاق کا جرمانہ بھر کے آیا ہوں اب اس سے آگے خدا جانے کب بکھر جاؤں یہاں تلک تو بہت بن سنور کے آیا ...
آخرش درد یا دوا تھا میں زندگی تو بتا کہ کیا تھا میں میں کبھی اک جگہ رکا ہی نہیں ایسا لگتا ہے کہ ہوا تھا میں ہاں مجھے خود کو زیر کرنا پڑا اپنے راستے میں آ رہا تھا میں اے قمرؔ اب مجھے بھی یاد نہیں آخری بار کب ہنسا تھا میں
ابھی تک آنکھ سے لپٹے ہوئے ہیں وہ ہنگامے جو ان دیکھے ہوئے ہیں تمہارے ہوش تو سالم ہیں لیکن ہمارے بال تو بکھرے ہوئے ہیں سفر کا وقت روشن ہو رہا ہے بدن پہ راستے ابھرے ہوئے ہیں بہادر اس تجسس میں ہیں غلطاں ہمارے سر کہاں رکھے ہوئے ہیں چراغو کس سے اتنا ڈر رہے ہو ہوا کے دانت تو ٹوٹے ...
حد محبت کی پار بھی کر لی اور پھر خود پہ شاعری کر لی اس قناعت پسند سے مل کر میرے غصے نے خودکشی کر لی ہجر کا ایک پل بھی سہہ نہ سکا اس کے آفس میں نوکری کر لی نیند کو آنکھ پر لپیٹ لیا اور پھر رات کی گھڑی کر لی