ابھی تک آنکھ سے لپٹے ہوئے ہیں
ابھی تک آنکھ سے لپٹے ہوئے ہیں
وہ ہنگامے جو ان دیکھے ہوئے ہیں
تمہارے ہوش تو سالم ہیں لیکن
ہمارے بال تو بکھرے ہوئے ہیں
سفر کا وقت روشن ہو رہا ہے
بدن پہ راستے ابھرے ہوئے ہیں
بہادر اس تجسس میں ہیں غلطاں
ہمارے سر کہاں رکھے ہوئے ہیں
چراغو کس سے اتنا ڈر رہے ہو
ہوا کے دانت تو ٹوٹے ہوئے ہیں