کس کی خواہش میں جل رہا ہے بدن
کس کی خواہش میں جل رہا ہے بدن
موم جیسا پگھل رہا ہے بدن
دھیرے دھیرے بدل رہے ہیں خیال
رفتہ رفتہ بدل رہا ہے بدن
دکھ کے کانٹوں پہ سو رہا ہوں میں
غم کے شعلوں پہ جل رہا ہے بدن
حسن پر نور سے لپٹنے کو
پاگلوں سا مچل رہا ہے بدن
سیج پہ کھل رہے ہیں وصل کے پھول
رات پہ عطر مل رہا ہے بدن
صبح ہونے کو ہے قمرؔ صاحب
اک بدن سے نکل رہا ہے بدن