Pritpal Singh Betab

پرتپال سنگھ بیتاب

صوفیانہ رنگ کے جدید شاعر

Eminent modern poet having Sufistic leanings

پرتپال سنگھ بیتاب کی غزل

    پھر لوٹ کے دھرتی پہ بھی آنے نہیں دیتا

    پھر لوٹ کے دھرتی پہ بھی آنے نہیں دیتا وہ پاؤں خلا میں بھی جمانے نہیں دیتا منظور نہیں لمحوں کی پہچان بھی اس کو اور نام درختوں سے مٹانے نہیں دیتا خوش رہتا ہے اجڑے ہوئے لوگوں سے ہمیشہ بسنے نہیں دیتا وہ بسانے نہیں دیتا موجوں کے مجھے راز بھی سمجھاتا نہیں وہ ساحل پہ سفینہ بھی لگانے ...

    مزید پڑھیے

    منظر سرو و سمن یاد آیا

    منظر سرو و سمن یاد آیا پھر سے گم گشتہ وطن یاد آیا پیچھے اب کیا ہے غبار رفتہ دہر میں باغ عدن یاد آیا بال و پر ٹوٹ چکے تھے جس وقت ہمیں پرواز کا فن یاد آیا پھر کسی شاخ پہ کوئل بولی پھر ترا رنگ سخن یاد آیا اول اک شخص کی یاد آئی بہت دوئم اک سانپ کا پھن یاد آیا ایک دن سوچا کہ اجلے ہو ...

    مزید پڑھیے

    پھر لوٹ کے دھرتی پہ بھی آنے نہیں دیتا

    پھر لوٹ کے دھرتی پہ بھی آنے نہیں دیتا وہ پاؤں خلا میں بھی جمانے نہیں دیتا خوش رہتا ہے اجڑے ہوئے لوگوں سے ہمیشہ بسنے نہیں دیتا وہ بسانے نہیں دیتا منظور نہیں لمحوں کی پہچان بھی اس کو اور نام درختوں سے مٹانے نہیں دیتا دیتا ہے مسافت بھی مہیب اندھے کنوؤں کی یوں تو وہ کسی کو بھی ...

    مزید پڑھیے

    سر جزیروں کے پھر سے ابھرنے لگے

    سر جزیروں کے پھر سے ابھرنے لگے وہ جو پانی چڑھے تھے اترنے لگے اب کسی دوست سے کوئی شکوہ نہیں وقت کے ساتھ سب زخم بھرنے لگے ہم نے ماضی میں ٹھکرائی ہیں منزلیں راستے میں کہاں ہم ٹھہرنے لگے موج در موج خشکی تھی پیش نظر شور اندر کے دریا بھی کرنے لگے ایسے کیا جرم سرزد ہوئے ارض پر لوگ ...

    مزید پڑھیے

    صبح جستجو ہے تو

    صبح جستجو ہے تو شام آرزو ہے تو میں تو خشک صحرا ہوں میری آب جو ہے تو زیور تخیل اور حسن گفتگو ہے تو کچھ الگ ستاروں سے چاند ہو بہ ہو ہے تو صبح ہے بنارس کی شام لکھنؤ ہے تو گرچہ اب نہیں بیتابؔ پھر بھی رو بہ رو ہے تو

    مزید پڑھیے

    کچھ امید بندھا دے چاہے دھوکہ دے

    کچھ امید بندھا دے چاہے دھوکہ دے جینے کا مجھ کو بھی ایک بہانہ دے نئے قلم سے نئے حروف لکھوں میں بھی تو بھی مجھ کو اپنا کاغذ کورا دے بھول بھلیوں میں کیوں مجھ کو رکھتا ہے سفر دیا ہے تو اک سیدھا رستہ دے عمر سے لمبی ہو گئی یہ تاریک سرنگ دوسری اور کا اب تو ہمیں بھی اجالا دے خواہش چاند ...

    مزید پڑھیے

    کس کی تصویر سے آئینہ ڈراتا ہے مجھے

    کس کی تصویر سے آئینہ ڈراتا ہے مجھے کون یہ مجھ سا ہے آنکھیں جو دکھاتا ہے مجھے نت نئے ساحل و امواج دکھاتا ہے مجھے اک سمندر ہے کہ ہر لحظہ بلاتا ہے مجھے ہے نہاں خانۂ غم اس کی ہنسی کے پیچھے ہنستا رہتا ہے وہ خود اور رلاتا ہے مجھے رات بھر کوہ ندا سے مجھے دیتا ہے صدا صبح ہوتے ہی بلندی سے ...

    مزید پڑھیے

    آج محصور ہیں دیمک زدہ دیواروں میں

    آج محصور ہیں دیمک زدہ دیواروں میں ہم بھی شامل تھے کبھی شہر کے معماروں میں آخرش ہاتھ جلا ہی لئے اپنے ہم نے جانے کیوں پھول نظر آتے تھے انگاروں میں یہ کسی سے نہ کہا لعل و جواہر تھے ہم پتھروں کی طرح بکتے رہے بازاروں میں دیر تک دستکیں دیتی رہی قسمت در پر اور ہم الجھے رہے اپنے ہی ...

    مزید پڑھیے

    یہ زندگی سفر ہے ٹھہر ہی نہ جائیے

    یہ زندگی سفر ہے ٹھہر ہی نہ جائیے یہ بھی کہ بے خیال گزر ہی نہ جائیے صحرائے ہول خیز میں رہئے لیے دیئے ریگ رواں کے ساتھ بکھر ہی نہ جائیے جب ڈوبنا ہی طے ہے ابھرنا محال ہے دلدل ہے دل فریب اتر ہی نہ جائیے ان راستوں میں رات بھٹکتی ہے بے سبب ایسا بھی خوف کیا ہے جو گھر ہی نہ جائیے اب کے ...

    مزید پڑھیے

    نت نئے رنگ میں نکلتا ہوں

    نت نئے رنگ میں نکلتا ہوں اپنے خوابوں کے ساتھ چلتا ہوں تارے اپنے سفر میں رہتے ہیں اور میں اپنی راہ چلتا ہوں گمرہی راہ خود نکالتی ہے نئے رستوں پہ جب نکلتا ہوں دور رہتا ہوں شاہراہوں سے اور پگڈنڈیوں پہ چلتا ہوں پاؤں اپنے ہیں لغزشیں اپنی خود ہی گرتا ہوں خود سنبھلتا ہوں برف رہتا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3