Pritpal Singh Betab

پرتپال سنگھ بیتاب

صوفیانہ رنگ کے جدید شاعر

Eminent modern poet having Sufistic leanings

پرتپال سنگھ بیتاب کے تمام مواد

30 غزل (Ghazal)

    دھیان دستک پہ لگا رہتا ہے

    دھیان دستک پہ لگا رہتا ہے اور دروازہ کھلا رہتا ہے کسی ملبے سے نہیں پر ہوتا میرے اندر جو خلا رہتا ہے کھینچتا ہے وہ لکیریں کیا کیا اور پھر ان میں گھرا رہتا ہے ہم کو خاموش نہ جانو صاحب اندر اک شور بپا رہتا ہے مجھ کو دے دیتا ہے گہرے پانی خود جزیروں پہ بسا رہتا ہے میری تنہائی کی ...

    مزید پڑھیے

    دنیائے رنگ و بو سے کنارہ نہیں کیا

    دنیائے رنگ و بو سے کنارہ نہیں کیا اچھا کیا جو ہم نے دکھاوا نہیں کیا ہم جسم کو بچا نہ سکے گرد سے مگر یہ تو کیا کہ روح کو میلا نہیں کیا اوروں پر اپنی ذات کی ترجیح تو بجا ہم نے کچھ اپنے ساتھ بھی اچھا نہیں کیا چپ چاپ باہر آ گئے رسہ کشی سے ہم ظاہر کسی پہ اپنا ارادہ نہیں کیا بس ڈوبتے ...

    مزید پڑھیے

    کچھ تو ہیں پیکر پریشاں آذروں کے درمیاں

    کچھ تو ہیں پیکر پریشاں آذروں کے درمیاں اور کچھ آزر پریشاں پتھروں کے درمیاں سب خبر ہوتے ہوئے پیر مغاں ہے بے خبر تشنگی کا غلغلہ ہے ساغروں کے درمیاں بھیڑ کی بے چہرگی میں ہیں کئی چہرے نہاں چند سر والے بھی ہیں ان بے سروں کے درمیاں آؤ سب اک روز مل بیٹھیں یہ سوچیں کیوں ہوئی اس قدر بے ...

    مزید پڑھیے

    آئینے میں گھورنے والا ہے کون

    آئینے میں گھورنے والا ہے کون اور اس کے سامنے والا ہے کون ہر قدم کرتا ہے جو میری نفی میرے اندر بولنے والا ہے کون میں اگر ہوں آسماں در آسماں یہ زمیں پر رینگنے والا ہے کون کس کے پیچھے دوڑتا رہتا ہوں میں آگے آگے بھاگنے والا ہے کون میں ہوں آتش دان سے چپکا ہوا برف و باراں ناچنے والا ...

    مزید پڑھیے

    بس کہ اک در بہ دری رہتی ہے

    بس کہ اک در بہ دری رہتی ہے خود سے ہی دوڑ لگی رہتی ہے منجمد ہم کو نہ جانو صاحب اندر اک آگ لگی رہتی ہے کچھ طبیعت ہی ملی ہے ایسی ساتھ اک غمزدگی رہتی ہے برے آثار کی سر پر گویا کوئی تلوار تنی رہتی ہے کوئی موسم ہو مرے پربت پر سال بھر برف جمی رہتی ہے دو کناروں کی طرح ہیں دونوں درمیاں ...

    مزید پڑھیے

تمام

2 نظم (Nazm)

    تیشہ بدست

    کب سے ان پہاڑوں کے سینے چیر چیر کر ان کی رگیں کھوج کھوج کر لعل و جواہر نکال رہا ہوں ڈھیروں کے ڈھیر لگا رہا ہوں بظاہر بہت خوش ہوں کہ لعل و جواہر کے یہ انبار میں نے لگائے ہیں بہ باطن البتہ اداس ہوں کہ وہ لعل جس کی مجھے تلاش ہے ہنوز میری دسترس سے پرے ہے دراصل وہ پہاڑ ابھی تک میری آنکھ ...

    مزید پڑھیے

    نقطۂ نو گریز

    ی تک پڑھی ہوئی ساری کتابیں دیکھی ہوئی تمام دنیا بلکہ دنیائیں اندر سے باہر کے تمام تجربات ماضی کا حصہ ہیں تاریخ بن چکے ہیں یہاں سے آگے سفر نیا ہے بالکل نیا کاغذ کورا ہے بالکل کورا بلکہ تمام کاغذ کورے ہیں بالکل کورے تحریر منتظر ہے نقطۂ آغاز سے بلکہ موہوم ہے ہندسۂ یکم ہے بلکہ صفر ...

    مزید پڑھیے