Pritpal Singh Betab

پرتپال سنگھ بیتاب

صوفیانہ رنگ کے جدید شاعر

Eminent modern poet having Sufistic leanings

پرتپال سنگھ بیتاب کی غزل

    دھیان دستک پہ لگا رہتا ہے

    دھیان دستک پہ لگا رہتا ہے اور دروازہ کھلا رہتا ہے کسی ملبے سے نہیں پر ہوتا میرے اندر جو خلا رہتا ہے کھینچتا ہے وہ لکیریں کیا کیا اور پھر ان میں گھرا رہتا ہے ہم کو خاموش نہ جانو صاحب اندر اک شور بپا رہتا ہے مجھ کو دے دیتا ہے گہرے پانی خود جزیروں پہ بسا رہتا ہے میری تنہائی کی ...

    مزید پڑھیے

    دنیائے رنگ و بو سے کنارہ نہیں کیا

    دنیائے رنگ و بو سے کنارہ نہیں کیا اچھا کیا جو ہم نے دکھاوا نہیں کیا ہم جسم کو بچا نہ سکے گرد سے مگر یہ تو کیا کہ روح کو میلا نہیں کیا اوروں پر اپنی ذات کی ترجیح تو بجا ہم نے کچھ اپنے ساتھ بھی اچھا نہیں کیا چپ چاپ باہر آ گئے رسہ کشی سے ہم ظاہر کسی پہ اپنا ارادہ نہیں کیا بس ڈوبتے ...

    مزید پڑھیے

    کچھ تو ہیں پیکر پریشاں آذروں کے درمیاں

    کچھ تو ہیں پیکر پریشاں آذروں کے درمیاں اور کچھ آزر پریشاں پتھروں کے درمیاں سب خبر ہوتے ہوئے پیر مغاں ہے بے خبر تشنگی کا غلغلہ ہے ساغروں کے درمیاں بھیڑ کی بے چہرگی میں ہیں کئی چہرے نہاں چند سر والے بھی ہیں ان بے سروں کے درمیاں آؤ سب اک روز مل بیٹھیں یہ سوچیں کیوں ہوئی اس قدر بے ...

    مزید پڑھیے

    آئینے میں گھورنے والا ہے کون

    آئینے میں گھورنے والا ہے کون اور اس کے سامنے والا ہے کون ہر قدم کرتا ہے جو میری نفی میرے اندر بولنے والا ہے کون میں اگر ہوں آسماں در آسماں یہ زمیں پر رینگنے والا ہے کون کس کے پیچھے دوڑتا رہتا ہوں میں آگے آگے بھاگنے والا ہے کون میں ہوں آتش دان سے چپکا ہوا برف و باراں ناچنے والا ...

    مزید پڑھیے

    بس کہ اک در بہ دری رہتی ہے

    بس کہ اک در بہ دری رہتی ہے خود سے ہی دوڑ لگی رہتی ہے منجمد ہم کو نہ جانو صاحب اندر اک آگ لگی رہتی ہے کچھ طبیعت ہی ملی ہے ایسی ساتھ اک غمزدگی رہتی ہے برے آثار کی سر پر گویا کوئی تلوار تنی رہتی ہے کوئی موسم ہو مرے پربت پر سال بھر برف جمی رہتی ہے دو کناروں کی طرح ہیں دونوں درمیاں ...

    مزید پڑھیے

    کیا لا مکاں سے آگے زمیں آسماں ہیں اور

    کیا لا مکاں سے آگے زمیں آسماں ہیں اور کیا کچھ مکیں بھی اور ہیں کیا کچھ مکاں ہیں اور ساحل نہیں ملا مگر اتنا پتہ چلا اس بحر میں جزیرے کئی بے نشاں ہیں اور جھکتی ہیں جن کے آگے مخالف ہوائیں بھی وہ کشتیاں ہی اور ہیں وہ بادباں ہیں اور صحرا جو موج ریگ ہوا کچھ بھی غم نہیں دریا میں بھی ...

    مزید پڑھیے

    صحرا بسے ہوئے تھے ہماری نگاہ میں

    صحرا بسے ہوئے تھے ہماری نگاہ میں خیمہ لگا نہ پائے ہم آب و گیاہ میں صدیاں ہماری راہ کو روکے کھڑی رہیں اور زندگی گزرتی رہی سال و ماہ میں بس جاتے ہم کہیں بھی سمندر کے درمیاں آیا مگر نہ کوئی جزیرہ ہی راہ میں اک بار ہاتھ لگ گئے اس اندھی بھیڑ کے واپس نہ لوٹ پائے ہم اپنی پناہ میں وقت ...

    مزید پڑھیے

    چار سو پھیلا ہوا کار جہاں رہنے دیا

    چار سو پھیلا ہوا کار جہاں رہنے دیا رک گئے ہم اور ہر شے کو رواں رہنے دیا اپنے گنبد میں کہاں سے آئے گی تازہ ہوا اک دریچہ بھی کھلا ہم نے کہاں رہنے دیا بال و پر قائم تھے ثابت ہمت پرواز تھی کچھ زمیں راس آ گئی بس آسماں رہنے دیا روز روشن آج سورج نے کیا گویا کمال برف ساماں قطرہ قطرہ ...

    مزید پڑھیے

    جن سے مقصود ہیں منزل کے نشانات مجھے

    جن سے مقصود ہیں منزل کے نشانات مجھے بھولتے جاتے ہیں وہ سارے اشارات مجھے راہ عرفان میں بھٹکے ہیں کچھ ایسے دونوں میں اسے ڈھونڈھتا ہوں اور مری ذات مجھے ان کے ڈر سے کئی راتیں مری بے خواب رہیں ڈھونڈھتی پھرتی ہیں خوابوں میں جو آفات مجھے دوسروں کے لئے وافر ہیں مرے پاس جواب کتنے مشکل ...

    مزید پڑھیے

    ظاہر میں بھی کیا کیا پردہ داری ہے

    ظاہر میں بھی کیا کیا پردہ داری ہے دنیا داری پرکاری عیاری ہے پاؤں تلے خود داری اور سفر آگے رک نہیں سکتے ہم کیسی لاچاری ہے ایک مسلسل دوڑ میں شامل ہم بھی ہیں شوق نہیں یہ اک ذہنی بیماری ہے باد مخالف پورے زور سے بہتی جائے اس جانب سے بھی پوری تیاری ہے ماضی میں تم جیت گئے مجھ سے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3