یہ زندگی سفر ہے ٹھہر ہی نہ جائیے

یہ زندگی سفر ہے ٹھہر ہی نہ جائیے
یہ بھی کہ بے خیال گزر ہی نہ جائیے


صحرائے ہول خیز میں رہئے لیے دیئے
ریگ رواں کے ساتھ بکھر ہی نہ جائیے


جب ڈوبنا ہی طے ہے ابھرنا محال ہے
دلدل ہے دل فریب اتر ہی نہ جائیے


ان راستوں میں رات بھٹکتی ہے بے سبب
ایسا بھی خوف کیا ہے جو گھر ہی نہ جائیے


اب کے سفر میں ہے یہ نیا ضابطہ جناب
جانا جدھر ہے آپ ادھر ہی نہ جائیے


بیتاب موت کی یہ للک زندگی بھی ہے
یوں انتظار موت میں مر ہی نہ جائیے