پھر لوٹ کے دھرتی پہ بھی آنے نہیں دیتا
پھر لوٹ کے دھرتی پہ بھی آنے نہیں دیتا
وہ پاؤں خلا میں بھی جمانے نہیں دیتا
خوش رہتا ہے اجڑے ہوئے لوگوں سے ہمیشہ
بسنے نہیں دیتا وہ بسانے نہیں دیتا
منظور نہیں لمحوں کی پہچان بھی اس کو
اور نام درختوں سے مٹانے نہیں دیتا
دیتا ہے مسافت بھی مہیب اندھے کنوؤں کی
یوں تو وہ کسی کو بھی خزانے نہیں دیتا
کہتا ہے کہ باقی بھی رہے یاد سفر کی
سوغات کوئی ساتھ بھی لانے نہیں دیتا
بسنے بھی نہیں دیتا مجھے اپنے نگر میں
صحرا بھی مگر مجھ کو بسانے نہیں دیتا
موجوں کے مجھے راز بھی سمجھاتا نہیں وہ
ساحل پہ سفینہ بھی لگانے نہیں دیتا
دے دیتا ہے ہر بار وہی ناؤ پرانی
خوابوں کو سمندر میں بہانے نہیں دیتا
پتھر بھی مجھے ہونے نہیں دیتا وہ لیکن
آنکھوں میں کوئی خواب سجانے نہیں دیتا