کچھ امید بندھا دے چاہے دھوکہ دے
کچھ امید بندھا دے چاہے دھوکہ دے
جینے کا مجھ کو بھی ایک بہانہ دے
نئے قلم سے نئے حروف لکھوں میں بھی
تو بھی مجھ کو اپنا کاغذ کورا دے
بھول بھلیوں میں کیوں مجھ کو رکھتا ہے
سفر دیا ہے تو اک سیدھا رستہ دے
عمر سے لمبی ہو گئی یہ تاریک سرنگ
دوسری اور کا اب تو ہمیں بھی اجالا دے
خواہش چاند ستاروں کی اک گٹھڑی ہے
میری چادر آسمان پر پھیلا دے
برے جہاں ہوں وہیں رہیں آباد سدا
جو اچھے ہیں ان کو دیس نکالا دے
خود سر میں بھی ہونا چاہتا ہوں بیتابؔ
اک تلوار مرے سر پر بھی تو لٹکا دے