کس کی تصویر سے آئینہ ڈراتا ہے مجھے

کس کی تصویر سے آئینہ ڈراتا ہے مجھے
کون یہ مجھ سا ہے آنکھیں جو دکھاتا ہے مجھے


نت نئے ساحل و امواج دکھاتا ہے مجھے
اک سمندر ہے کہ ہر لحظہ بلاتا ہے مجھے


ہے نہاں خانۂ غم اس کی ہنسی کے پیچھے
ہنستا رہتا ہے وہ خود اور رلاتا ہے مجھے


رات بھر کوہ ندا سے مجھے دیتا ہے صدا
صبح ہوتے ہی بلندی سے گراتا ہے مجھے


اشک یہ اور کسی کا ہے سر شام امید
میری آنکھوں میں اتر کر جو رلاتا ہے مجھے


کسے اچھا کہوں اب کس کو برا اے بیتابؔ
ہر کوئی اپنے ہی جیسا نظر آتا ہے مجھے