پھر لوٹ کے دھرتی پہ بھی آنے نہیں دیتا

پھر لوٹ کے دھرتی پہ بھی آنے نہیں دیتا
وہ پاؤں خلا میں بھی جمانے نہیں دیتا


منظور نہیں لمحوں کی پہچان بھی اس کو
اور نام درختوں سے مٹانے نہیں دیتا


خوش رہتا ہے اجڑے ہوئے لوگوں سے ہمیشہ
بسنے نہیں دیتا وہ بسانے نہیں دیتا


موجوں کے مجھے راز بھی سمجھاتا نہیں وہ
ساحل پہ سفینہ بھی لگانے نہیں دیتا


دے دیتا ہے ہر بار وہی ناؤ پرانی
خوابوں کو سمندر میں بہانے نہیں دیتا


تعمیر نئی چاہتا ہے دیکھنا ہر سو
اور نقش کہن کوئی مٹانے نہیں دیتا


مصروف برا وقت مجھے رکھتا ہے بیتابؔ
یاد اچھے دنوں کی کبھی آنے نہیں دیتا