Pritpal Singh Betab

پرتپال سنگھ بیتاب

صوفیانہ رنگ کے جدید شاعر

Eminent modern poet having Sufistic leanings

پرتپال سنگھ بیتاب کی غزل

    کالا جادو پھیل رہا ہے

    کالا جادو پھیل رہا ہے اور خدا خاموش کھڑا ہے کالے سائے ناچ رہے ہیں چار طرف پر شور ہوا ہے آگ دکھا کر جلنے والو کس کی آگ میں کون جلا ہے سانس بھی تم لیتے ہو کیوں کر اف کتنی مسموم ہوا ہے لاکھوں بھیڑیں دوڑ رہی ہیں ایک گڈریا ہانک رہا ہے رقص کناں ہوں اک رسی پر اور توازن بگڑ رہا ہے میں ...

    مزید پڑھیے

    سورج ہے نیا چاند نیا تارے نئے ہیں

    سورج ہے نیا چاند نیا تارے نئے ہیں یہ کیا پس دنیا ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں موسم تو کئی آئے مگر خواب ہمارے سوکھے ہوئے پتوں کی طرح گرتے رہے ہیں ہر لمحہ کوئی اینٹ اکھڑ جاتی ہے جس کی ہم لوگ اسی دیوار کے سائے میں کھڑے ہیں خود اپنے ہی سائے نے ہمیں نیچا دکھایا ہم سوچتے تھے ہم سبھی سایوں سے ...

    مزید پڑھیے

    راستوں راستوں بھٹکتا ہوں

    راستوں راستوں بھٹکتا ہوں جانے کس کی تلاش کرتا ہوں ہار جاتا ہوں شام ہونے تک اپنے سائے سے روز لڑتا ہوں زندگی دیکھ میں تری خاطر روز کس کس طرح سے مرتا ہوں میری ہجرت ہی میری فطرت ہے روز بستا ہوں روز اجڑتا ہوں صبح دم سب ادھرنے لگتے ہیں خواب جو رات رات بنتا ہوں واہمے پالتا ہوں میں ...

    مزید پڑھیے

    یہ زمیں ہوں وہ آسماں بھی ہوں

    یہ زمیں ہوں وہ آسماں بھی ہوں میں یہاں بھی ہوں میں وہاں بھی ہوں مرتبہ میرا جو بھی ہے سو ہے بہت اچھا ہوں میں جہاں بھی ہوں مجھ سے باہر مرا سراغ نہیں میں کہ منزل بھی ہوں نشاں بھی ہوں تن تنہا بھی گامزن ہوں اور ساتھ سب کے رواں دواں بھی ہوں مجھ سے میرے سوا نہ کچھ بھی مانگ میں سفر بھی ...

    مزید پڑھیے

    مجھ کو معلوم تھا میں اور سنور جاؤں گا

    مجھ کو معلوم تھا میں اور سنور جاؤں گا گھر سے نکلوں گا تو ہر سمت بکھر جاؤں گا راز موجوں کے سمندر نے بتائے ہیں مجھے یہاں ڈوبوں گا کہیں اور ابھر جاؤں گا ابھی سستاؤں گا کچھ دیر اسی دوراہے پر بعد میں سوچوں گا دیکھوں گا کدھر جاؤں گا میں تو برزخ کے اندھیروں میں جلاؤں گا چراغ میں نہیں ...

    مزید پڑھیے

    اس کا کمال ہے کہ خزاں پر بہار ہے

    اس کا کمال ہے کہ خزاں پر بہار ہے حد نظر تلک جو طلسمی حصار ہے آگے بھی صبح تک نہیں روشن کوئی سراغ پیچھے بھی دور دور یہ تاریک غار ہے جھونکے کہیں سے آتے ہیں تازہ ہواؤں کے کنج قفس کہیں کوئی راہ فرار ہے ان آبلوں کو پاؤں سے نسبت ہے دائمی آگے یہی سفر ہے یہی خار زار ہے تھا اک شجر بلند جو ...

    مزید پڑھیے

    سوکھے پتے اڑا رہا ہوگا

    سوکھے پتے اڑا رہا ہوگا وہ خزاؤں سے کھیلتا ہوگا نیند کے نام سے جو ڈرتا ہے سانپ خوابوں میں دیکھتا ہوگا برف پگھلے گی جب پہاڑوں پر دھوپ میں شہر جل گیا ہوگا پتھروں سے ہے واسطہ جس کو آئنہ چھپ کے دیکھتا ہوگا مخلصی اس کو کھا چکی ہوگی وہ تو رشتوں میں بٹ چکا ہوگا رنگ سازوں کے شہر کا ...

    مزید پڑھیے

    مقام اور بھی آئیں گے لا مکان کے بعد

    مقام اور بھی آئیں گے لا مکان کے بعد ضرور ہوں گے جہاں اور اس جہان کے بعد شکستہ پر تھے مرے اور ختم تھی پرواز اک آسمان تھا باقی اک آسمان کے بعد جو کامیابی ملی وہ ہمیں عبوری ملی کچھ امتحان تھے باقی ہر امتحان کے بعد وہ جیسا طے تھا وہاں کچھ بھی تو نہ تھا ایسا نشان کوئی نہیں تھا اس اک ...

    مزید پڑھیے

    ضابطوں کی اور قدروں کی روانی دیکھنا

    ضابطوں کی اور قدروں کی روانی دیکھنا پھر ہوا میں چار سو اک بد گمانی دیکھنا لمحہ لمحہ پھیلتا ہی جا رہا ہے چار سو شہر میں جنگل کی اک دن بیکرانی دیکھنا چاہتا ہے وہ مجھے خوش دیکھنا ہر حال میں چھین لے گا مجھ سے میری نوحہ خوانی دیکھنا آنے والی اور ابھی راتیں ہیں تاریک و مہیب اور ...

    مزید پڑھیے

    اک فقط ساحل تلک آتا ہوں میں

    اک فقط ساحل تلک آتا ہوں میں رو میں جانے کیسے بہہ جاتا ہوں میں منزلوں کی جستجو میں بارہا منزلوں سے آگے بڑھ جاتا ہوں میں بھاگتا ہوں رات جس جنگل سے دور صبح اسی کو سامنے پاتا ہوں میں کس افق میں دفن ہو جاتا ہے دن ہر شب اس الجھن کو سلجھاتا ہوں میں مر گیا جو شخص مجھ میں اس کا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3