ہونٹوں پہ بھولے سے کبھی بھی تیرا نام نہ آئے گا

ہونٹوں پہ بھولے سے کبھی بھی تیرا نام نہ آئے گا
میری رسوائی کا جا تجھ پر الزام نہ آئے گا


اب کے کھلے ہی رہ جائیں گے آشاؤں کے دروازے
پتھرا جائیں گی سب آنکھیں لیکن شیام نہ آئے گا


ہو جائے گا خشک اچانک اک دن پیڑ تعلق کا
خالص خون کا آخری قطرہ بھی کچھ کام نہ آئے گا


شوق سے تم الزام تراشو شہر بدر کر دو لیکن
پھر دوبارہ اس بستی میں یہ بدنام نہ آئے گا


واپس ہوتے ہر پنچھی کے ہونٹوں پر اک نوحہ ہے
آہ سمندر پار سے اب کوئی پیغام نہ آئے گا


باہر برفوں کی یورش ہے اندر شعلوں کی یلغار
پرویزؔ اپنی ذات کو اب شاید آرام نہ آئے گا