رائیگاں جاتی نہ کیوں پھر ہمہ کوشی اس کی

رائیگاں جاتی نہ کیوں پھر ہمہ کوشی اس کی
تھی غرض کار بہت حلقہ بگوشی اس کی


ہر طرف اس نے دیا جسم نمائی کو رواج
خوب مشہور ہوئی سایہ فروشی اس کی


بر سر عام مری چپ کی جو تشہیر ہوئی
مشتعل ہو اٹھی آواز بگوشی اس کی


منعکس ہو نہ سکی کوئی بھی صورت اس سے
یعنی بیکار گئی آئنہ پوشی اس کی


آ گیا وہ مری خورشید پناہی کے تلے
مجھ سے دیکھی نہ گئی خانہ بدوشی اس کی


بے فرشتہ ہوا کب شانہ خبر تک نہ ہوئی
مجھ پہ طاری تھی کچھ اس طرح بے ہوشی اوس کی


خاص کر لیجئے پرویزؔ کا ثانی کوئی
عام ہونے کو ہے دل دوز خموشی اس کی