کہو فرار سے باندھے نہ پاؤں میں آنکھیں
کہو فرار سے باندھے نہ پاؤں میں آنکھیں
قدم قدم پہ بچھی ہیں دشاؤں میں آنکھیں
نہ جانے کون سی ہوگی تلاش کی منزل
بھٹک رہی ہیں ابھی تک خلاؤں میں آنکھیں
کراہ اٹھی تھی سرگوشی کوئی چپکے سے
لگی تھی ٹھیس کہ اگ آئیں پاؤں میں آنکھیں
پرندے اب نہیں منظر گزارنے والے
ہزار خواب سجائیں فضاؤں میں آنکھیں
پہاڑیاں ہوئی عرفان آگہی سے بہار
جو معتکف ہوئیں اندھی گپھاؤں میں آنکھیں
بکھرتے شہروں کے منظر انہیں دکھاؤ بھی
امید سے ہیں بہت اب کے گاؤں میں آنکھیں
فضا نشین ہے تیزاب روشنی پرویزؔ
نکلتے ڈرتی ہیں اب تو ہواؤں میں آنکھیں