پروین کیف کی غزل

    حیا تو اس سے شرماتی بہت ہے

    حیا تو اس سے شرماتی بہت ہے پڑوسن میری اتراتی بہت ہے وہ گھر میں چین سے رہتی ہے کم کم مگر چھت پر نظر آتی بہت ہے نہیں سنتی کسی کی اپنے آگے سمجھتی کم ہے سمجھاتی بہت ہے کرے ہے گفتگو سرگوشیوں میں مگر زیور تو کھنکاتی بہت ہے بڑی سنجیدہ بنتی ہے وہ لیکن میاں سے چھپ کے مستانی بہت ہے مرے ...

    مزید پڑھیے

    چاند سورج مرے گھر آتے ہیں

    چاند سورج مرے گھر آتے ہیں کیا حسیں خواب نظر آتے ہیں مجھ سے کہتے ہیں ٹھہر دم لے لے راہ میں جتنے شجر آتے ہیں دیکھنا مرے تخیل کا کمال نہیں آتے وہ مگر آتے ہیں برق ہنستی ہے نشیمن پہ مرے ابر با دیدۂ تر آتے ہیں دیکھ کر اپنے شکستہ دل کو یاد محلوں کے کھنڈر آتے ہیں ہے برا حال انہیں کیا ...

    مزید پڑھیے

    لو وہ آنسو سجھائی دینے لگے

    لو وہ آنسو سجھائی دینے لگے دن میں تارے دکھائی دینے لگے میں نے شکوہ کیا تھا دنیا کا کیوں تم اپنی صفائی دینے لگے میں نے ورثے میں حق جو مانگ لیا دکھ مجھے میرے بھائی دینے لگے درد اپنا کہوں وہ مجھ کو اگر اپنے دل تک رسائی دینے لگے میں نے اچھا کہا وفا نہ رہی لوگ مجھ کو برائی دینے ...

    مزید پڑھیے

    نہ بلاؤ مجھے خدا کی طرف (ردیف .. ی)

    نہ بلاؤ مجھے خدا کی طرف میں اسی کی ہوں بندگی میں لگی جس میں تھی جنگلوں کی بے نظمی وہ نمائش بھی شہر ہی میں لگی رات میں نے پڑھی جو دھوپ کی نظم بے مزہ ان کو چاندنی میں لگی جام سقراط کیا پیا میں نے پیاس مجھ کو نہ زندگی میں لگی اور کچھ کام بھی کروں پروینؔ تم تو ہو صرف شاعری میں لگی

    مزید پڑھیے

    یہ چھوٹا سا مکاں بغیا لگانے کون دیتا ہے

    یہ چھوٹا سا مکاں بغیا لگانے کون دیتا ہے در و دیوار پر سبزہ اگانے کون دیتا ہے کبھی نازاں تھے ہم آنسو بہانے کون دیتا ہے مگر اے چشم نم اب مسکرانے کون دیتا ہے مری آنکھوں کو یہ سپنے سہانے کون دیتا ہے وہ آئے گا دلاسے دل کو جانے کون دیتا ہے پتہ چلتا ہے کیسے میرے ان کے چھپ کے ملنے کا خبر ...

    مزید پڑھیے

    دھوپ کھڑکی سے سرہانے آئی

    دھوپ کھڑکی سے سرہانے آئی چاند خوابوں کے بجھانے آئی ہائے وہ پھول سے ہنستے چہرے یاد پھر ان کی رلانے آئی دل چراغوں کے ابھی لرزاں ہیں پھر ہوا ہوش اڑانے آئی دل سلگتا تھا شب غم یوں ہی چاندنی اور جلانے آئی اٹھ ہوئی صبح اذاں کی آواز نیند سے مجھ کو جگانے آئی اوڑھ لی تو نے برہنہ ...

    مزید پڑھیے

    کیا ہے شق القمر نظیر تو ہے

    کیا ہے شق القمر نظیر تو ہے چاند کے درمیاں لکیر تو ہے سوچ سکتی ہوں سچ نہ کہہ پاؤں مجھ میں جرأت نہ ہو ضمیر تو ہے وہ کسی کی نظر نہیں نہ سہی دل میں پیوست اک تیر تو ہے ہے وہی کائنات کی بنیاد گو وہ اک ذرۂ حقیر تو ہے روشنی مانگتا ہے سورج سے چاند اک کاسۂ فقیر تو ہے کیفؔ کا جو بھی ہو ...

    مزید پڑھیے

    خدا بچائے محبت کی اس بلا سے بھی

    خدا بچائے محبت کی اس بلا سے بھی کہ درد دل نہیں جاتا کسی دوا سے بھی جلا رکھے ہیں مری زندگی میں سانسوں نے چراغ ایسے کہ بجھتے نہیں ہوا سے بھی مرے لئے مرا اللہ کون سا کم ہے مجھے تو کام نہیں ہے کسی خدا سے بھی چراغ راہ بنایا ہے تم نے کس کس کو کبھی ملے ہو محمد کے نقش پا سے بھی ہم اپنی ...

    مزید پڑھیے

    ابر رحمت گھروں پہ رہتے تھے

    ابر رحمت گھروں پہ رہتے تھے جب دوپٹے سروں پہ رہتے تھے وہ بھی پردہ دروں میں شامل ہیں پردے جن کے دروں پہ رہتے تھے آج کے تاجور ہیں جو کل تک وقت کی ٹھوکروں پہ رہتے تھے ان کی کرچوں سے پاؤں زخمی ہیں ہونٹ جو ساغروں پہ رہتے تھے رقص کرتے تھے ہم بھی لیکن ہاں مرکزوں محوروں پہ رہتے تھے ہم ...

    مزید پڑھیے

    پیام غم کا وہی غم گسار دیتے ہیں

    پیام غم کا وہی غم گسار دیتے ہیں تسلیاں جو نئی بار بار دیتے ہیں کہاں کا ہوش انہیں یہ تری ہے رسوائی صدائیں تجھ کو جو دیوانہ وار دیتے ہیں وہ آتے آتے یہ کہتے ہیں جلد جانا ہے وہ جاتے جاتے نیا انتظار دیتے ہیں بچا سکیں گے سفینوں کو خاک طوفاں سے وہ ناخدا کہ جو ہمت ہی ہار دیتے ہیں میں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3