پروین کیف کی غزل

    چاند پر کیوں میں اکیلی جاتی

    چاند پر کیوں میں اکیلی جاتی ساتھ کوئی تو سہیلی جاتی آؤ مل جل کے سہیں ہجر کی دھوپ مجھ سے تنہا نہیں جھیلی جاتی بولنا مجھ سے نہ تم بند کرو ہر طرف بات ہے پھیلی جاتی ہم اگر عقل کو درباں کرتے ہاتھ سے دل کی حویلی جاتی ہائے صندل کے درختوں کی یہ راکھ جان خوشبو کی نہ لے لی جاتی بن تو ...

    مزید پڑھیے

    کچھ میں کہہ بیٹھوں خدا نخواستہ

    کچھ میں کہہ بیٹھوں خدا نخواستہ مولوی صاحب خدا کا واسطہ یاد آتی ہے تو بھر آتا ہے دل زندگی کی محفلیں برخاستہ چاندی سونا دو مگر ہوں بیٹیاں زیور تعلیم سے آراستہ اپنی ٹھوکر پر ہے خوابوں کا سفر کون سی منزل کہاں کا راستہ چاند تارے دل جلانے آئے ہیں شام غم آراستہ پیراستہ

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3