پروین کیف کے تمام مواد

22 غزل (Ghazal)

    سکندر کے سفر کی بات نکلے

    سکندر کے سفر کی بات نکلے کفن میں سے ہوں خالی ہاتھ نکلے وہ کل کی فیس بک وہ کیفؔ و شعریؔ وہ دیکھو چاند سورج ساتھ نکلے میں نکلوں چاندی اور سونا پہن کر مگر مٹی مری اوقات نکلے توقع لے کے وہ آیا تھا لیکن اسی جیسے میرے حالات نکلے جہاں ارتھی اٹھائی جا رہی ہو اسی کوچے سے کیوں بارات ...

    مزید پڑھیے

    جب کبھی کوئی کام یاد آیا

    جب کبھی کوئی کام یاد آیا تب انہیں میرا نام یاد آیا جب یہ سوچا کہ ان سے تھی پہچان دور ہی کا سلام یاد آیا پھر نشیمن کی ابتری دیکھی پھر قفس کا نظام یاد آیا پھر وہ شب وہ سکوت کا عالم پھر خدا کا کلام یاد آیا آج انہیں دیکھ کر محبت کا قصۂ ناتمام یاد آیا ہائے ماضی کے خیریت نامے جانے ...

    مزید پڑھیے

    ہم خدا تھے نہ خدائی اپنی

    ہم خدا تھے نہ خدائی اپنی کیا بیاں کرتے بڑائی اپنی بس ترا دھیان مجھے آیا تھا پھر کبھی یاد نہ آئی اپنی سب پہنچ میں ہیں مگر کیا کہیے کس کے دل تک ہے رسائی اپنی دل میں لائے ترے خوابوں کا خیال ہم نے خود نیند اڑائی اپنی تم یہ کہہ دو چلو ہم ہار گئے ختم کی میں نے لڑائی اپنی کون سمجھے گا ...

    مزید پڑھیے

    چین آتا نہیں ان سے ملاقات کئے بن

    چین آتا نہیں ان سے ملاقات کئے بن بولیں نہ وہ میں رہتی نہیں بات کئے بن کمبخت ہواؤں نے یہ کیا کہہ دیا ان سے کیوں ابر اڑے جاتے ہیں برسات کئے بن مے آ گئی گھر میں یہ خبر شیخ نہ سن لیں لوٹ آئیں گے مسجد سے مناجات کئے بن شاید انہیں ڈر ہو میں شکایات کروں گی آئے تھے گئے پرسش حالات کئے ...

    مزید پڑھیے

    سکوں یہ اپنے سویروں کا چین رین کا

    سکوں یہ اپنے سویروں کا چین رین کا کوئی حساب نہیں ہے خدا کی دینوں کا مکان کچے تھے وعدے تھے پکے دل روشن زمانہ تھا وہ چراغوں کا لالٹینوں کا یہ سچ ہے گاؤں کی راتیں خاموش ہوتی ہیں مگر وہ شور گزرتی ہوئی ٹرینوں کا گلے کا ہار صلیبیں ہیں سب دکھاوے کی یہاں رواج ہے اب تو طلائی چینوں ...

    مزید پڑھیے

تمام