چاند سورج مرے گھر آتے ہیں

چاند سورج مرے گھر آتے ہیں
کیا حسیں خواب نظر آتے ہیں


مجھ سے کہتے ہیں ٹھہر دم لے لے
راہ میں جتنے شجر آتے ہیں


دیکھنا مرے تخیل کا کمال
نہیں آتے وہ مگر آتے ہیں


برق ہنستی ہے نشیمن پہ مرے
ابر با دیدۂ تر آتے ہیں


دیکھ کر اپنے شکستہ دل کو
یاد محلوں کے کھنڈر آتے ہیں


ہے برا حال انہیں کیا معلوم
وہ بھلا کب مرے گھر آتے ہیں


سچ ہے پتھراؤ تبھی ہوتا ہے
جب درختوں پہ ثمر آتے ہیں


فون اٹھائے گی نہ پروینؔ اس وقت
بچے اسکول سے گھر آتے ہیں