Pallav Mishra

پلو مشرا

پلو مشرا کی غزل

    ڈرتے تھے اسی سبزہ آبائی سے پہلے

    ڈرتے تھے اسی سبزہ آبائی سے پہلے چہرے پہ مسیں پھوٹ پڑیں کائی سے پہلے پھر آنکھوں نے تخلیق کے سامان جٹائے ہم تجھ سے ملے تھے تری رعنائی سے پہلے سنتے ہیں شعاعیں ہیں صداؤں سے سبک گام بینائی چلی جاتی ہے گویائی سے پہلے اور اب تری پرچھائیں کے چرچے ہیں سبھی اور کیا دھوپ کھلی تھی تری ...

    مزید پڑھیے

    قریب آنے لگا وہ تو رات گہری ہوئی

    قریب آنے لگا وہ تو رات گہری ہوئی وہ رات ٹھہری رہی جب تلک دوپہری ہوئی سبوں نے اپنے پیاروں کے لب چکھے علی الصبح گزار کر شب ہجراں سبوں کی سحری ہوئی وہ کون ہوگا جو واپس نہ لوٹ پائے گا ہے انتظار میں اک رہ گزار ٹھہری ہوئی ہمارے چہرے کی زردی پہ ہاتھ رکھ اس نے اک ایسا رنگ لگایا کہ چھب ...

    مزید پڑھیے

    تمہیں آنسو بہانے کو بھی مل جائیں کئی کندھے (ردیف .. ا)

    تمہیں آنسو بہانے کو بھی مل جائیں کئی کندھے مگر مجھ کو اذیت میں پریشاں کون دیکھے گا تمہیں جو اس کی خاطر جاگتے بیٹھے رہے شب بھر جو اب سو جاؤ تو صبح درخشاں کون دیکھے گا میں بھاگا تو چلا آؤں تمہاری اک ندا سن کر سر وقت جنوں انکار درباں کون دیکھے گا میں تیرے ہجر میں بیٹھا ہوا کچھ ...

    مزید پڑھیے

    بندھ جائیں سامان طنابیں کھل جائیں

    بندھ جائیں سامان طنابیں کھل جائیں کاش خدا پر میری دعائیں کھل جائیں میں تو بس اس کی ہی خوشی میں جی لوں گا گر میرے عیسیٰ کی سانسیں کھل جائیں صبح ہوئی ہے لیکن ابھی اندھیرا ہے اتنا مت جاگو کی یہ آنکھیں کھل جائیں چند لکیریں لکھ پائیں کتنی تحریر ایک جبیں پر کتنی شکنیں کھل جائیں اس ...

    مزید پڑھیے

    دنیا جہاں کے جام چھلک جائیں ریت پر

    دنیا جہاں کے جام چھلک جائیں ریت پر کیا کیجیے کہ ہونٹ بہک جائیں ریت پر پانی کی چاہ بھی ہو سمندر کا خوف بھی لہروں کے ساتھ ساتھ ہمک جائیں ریت پر گو لاکھ سیپیوں میں سمندر کی قید ہوں موتی وہی جو پھر بھی جھلک جائیں ریت پر کاسہ ہر اک صدف کا لٹا جائے اشرفی لعل و جواہرات کھنک جائیں ریت ...

    مزید پڑھیے

    نہیں تھا کوئی گلہ آگ کو روانی سے

    نہیں تھا کوئی گلہ آگ کو روانی سے ہوا تھی جس نے لیا انتقام پانی سے پیام آتے رہے جائے لا مکانی سے گیا نہ کوئی جواب اس سرائے فانی سے کہاں کے دشت قدامت ہی کھو گئی اب تو پلے بڑھے ہیں یہ شہروں کی مہربانی سے حیات پھر سے چلی لڑکھڑا کے مستی میں سنبھل گئی تھی کسی مرگ ناگہانی سے پھہر کے ...

    مزید پڑھیے

    وہ بار فرض تکلف مجھی کو دھونا پڑا

    وہ بار فرض تکلف مجھی کو دھونا پڑا اسے رلانے کہ خاطر مجھے بھی رونا پڑا وہ ایک حسن تھا جس کی تھی صرف خواب میں بود اسے جگانے کی چاہت میں مجھ کو سونا پڑا میں دیکھتا ہوں یہ چھینٹے لگیں گے کس کے ہاتھ مجھے جو آج اداسی سے ہاتھ دھونا پڑا یہ کیا ہوا کہ تری دھن میں جن سے بچھڑے تھے انہیں کے ...

    مزید پڑھیے

    ثبات دل تھا مگر بیقرار ہو گیا تھا

    ثبات دل تھا مگر بیقرار ہو گیا تھا وہ نور میری حرارت سے نار ہو گیا تھا ثبات دل تھا مگر بیقرار ہو گیا تھا وہ نور میری حرارت سے نار ہو گیا تھا ہوا چلی ہی نہیں اے محاذ راہ گزر وگرنہ خاک کا پتلا غبار ہو گیا تھا جب اس کی دھوپ نے دیکھی ہماری سوریہ مکھی ہمارا نام گلوں میں شمار ہو گیا ...

    مزید پڑھیے

    تمہاری دنیا کے باہر اندر بھٹک رہا ہوں

    تمہاری دنیا کے باہر اندر بھٹک رہا ہوں میں بعد ترک جہاں یہی پر بھٹک رہا ہوں میں تجھ سے ملنے سمے سے پہلے پہنچ گیا تھا سو تیرے گھر کے قریب آ کے بھٹک رہا ہوں میں ایک خانہ بدوش ہوں جس کا گھر ہے دنیا سو اپنے کاندھوں پہ لے کے یہ گھر بھٹک رہا ہوں میں ہر قدم پر سنبھل سنبھل کر بھٹکنے ...

    مزید پڑھیے

    کچھ ایسے دو جہاں سے رابطہ رکھا گیا ہے

    کچھ ایسے دو جہاں سے رابطہ رکھا گیا ہے کہ ان خوابیدہ آنکھوں کو کھلا رکھا گیا ہے مری آنکھوں میں اب تو ریت پائے گا نہ پانی یہاں دریا نہ صحرا بس خلا رکھا گیا ہے پس پردہ گلے مل کر وہ شاید رو پڑیں گے جنہیں پوری کہانی میں جدا رکھا گیا ہے

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2