دنیا جہاں کے جام چھلک جائیں ریت پر

دنیا جہاں کے جام چھلک جائیں ریت پر
کیا کیجیے کہ ہونٹ بہک جائیں ریت پر


پانی کی چاہ بھی ہو سمندر کا خوف بھی
لہروں کے ساتھ ساتھ ہمک جائیں ریت پر


گو لاکھ سیپیوں میں سمندر کی قید ہوں
موتی وہی جو پھر بھی جھلک جائیں ریت پر


کاسہ ہر اک صدف کا لٹا جائے اشرفی
لعل و جواہرات کھنک جائیں ریت پر


ٹک آنکھ تو بھی کھول کہ دریا کے لب کھلیں
ساتوں دشا کے دانت چمک جائیں ریت پر


چھن جائیں رس کے فرش سے دھرتی کے غار میں
اور آسماں کی چھت سے ٹپک جائیں ریت پر


رکھیے سفر میں سب کی تن آسانیوں کی خیر
ایسا نہ ہو کہ گھوڑے بدک جائیں ریت پر


سرگوشیوں کی موج کہاں لے کے جائے گی
ہم کچھ اگر جنون میں بک جائیں ریت پر


سورج کی آسماں پہ ستاروں کو ڈھانپ لے
ذروں سے آفتاب دمک جائیں ریت پر


دل کی دھڑکتی خاک سے ساحل بنائیے
پانی کے پاؤں آج تھرک جائیں ریت پر