ڈرتے تھے اسی سبزہ آبائی سے پہلے
ڈرتے تھے اسی سبزہ آبائی سے پہلے
چہرے پہ مسیں پھوٹ پڑیں کائی سے پہلے
پھر آنکھوں نے تخلیق کے سامان جٹائے
ہم تجھ سے ملے تھے تری رعنائی سے پہلے
سنتے ہیں شعاعیں ہیں صداؤں سے سبک گام
بینائی چلی جاتی ہے گویائی سے پہلے
اور اب تری پرچھائیں کے چرچے ہیں سبھی اور
کیا دھوپ کھلی تھی تری انگڑائی سے پہلے
پچھم کی ہوا لے گئی پچھم سے ہمیں دور
پورب کی طرف اڑتے تھے پربائی سے پہلے
ہمت سے سوا تاب ندامت میں ہے یارو
ہم ڈوب گئے پانی کی گہرائی سے پہلے