نہیں تھا کوئی گلہ آگ کو روانی سے

نہیں تھا کوئی گلہ آگ کو روانی سے
ہوا تھی جس نے لیا انتقام پانی سے


پیام آتے رہے جائے لا مکانی سے
گیا نہ کوئی جواب اس سرائے فانی سے


کہاں کے دشت قدامت ہی کھو گئی اب تو
پلے بڑھے ہیں یہ شہروں کی مہربانی سے


حیات پھر سے چلی لڑکھڑا کے مستی میں
سنبھل گئی تھی کسی مرگ ناگہانی سے


پھہر کے پال کھلی ناؤ کی سر مستول
سفیر تازہ ہوئے باد بادبانی سے


ہٹا نہ لیجیو محفل میں مجھ سے اپنی نگہ
نشستہ ہوں میں اسی بار کی گرانی سے


جنون میرا کرشمہ ہے اے خدا مرا نام
جدا ہی رکھ کسی امت کی رائیگانی سے