قریب آنے لگا وہ تو رات گہری ہوئی

قریب آنے لگا وہ تو رات گہری ہوئی
وہ رات ٹھہری رہی جب تلک دوپہری ہوئی


سبوں نے اپنے پیاروں کے لب چکھے علی الصبح
گزار کر شب ہجراں سبوں کی سحری ہوئی


وہ کون ہوگا جو واپس نہ لوٹ پائے گا
ہے انتظار میں اک رہ گزار ٹھہری ہوئی


ہمارے چہرے کی زردی پہ ہاتھ رکھ اس نے
اک ایسا رنگ لگایا کہ چھب سنہری ہوئی


اڑائے خاک تو تاروں سے بھر گئے افلاک
بچھائے تار گریباں کے تو مسہری ہوئی