ثبات دل تھا مگر بیقرار ہو گیا تھا

ثبات دل تھا مگر بیقرار ہو گیا تھا
وہ نور میری حرارت سے نار ہو گیا تھا


ثبات دل تھا مگر بیقرار ہو گیا تھا
وہ نور میری حرارت سے نار ہو گیا تھا


ہوا چلی ہی نہیں اے محاذ راہ گزر
وگرنہ خاک کا پتلا غبار ہو گیا تھا


جب اس کی دھوپ نے دیکھی ہماری سوریہ مکھی
ہمارا نام گلوں میں شمار ہو گیا تھا


کہاں خبر تھی کہ یہ مرحلہ بھی مشکل ہے
کہ میں تو پہلی ہی کوشش میں پار ہو گیا تھا


پتا چلا کہ کوئی دل تھا دل کے اندر بھی
کسی کا غم میں مرے انتشار ہو گیا تھا


خنک سے قتل ہوئی اک سدا تیر کشی
بس اتنی بات تھی میرا شکار ہو گیا تھا


ہزار حیف کہ مبہم ہوئی مری دنیا
ہزار شکر کہ تو آشکار ہو گیا تھا


ہزار حیف کہ پژمردہ ہو گئیں آنکھیں
ہزار شکر ترا انتظار ہو گیا تھا