اسامہ خالد کی غزل

    کبھی ہوتا ہے پریشاں کبھی شرماتا ہے

    کبھی ہوتا ہے پریشاں کبھی شرماتا ہے آئینہ میرے خد و خال سے گھبراتا ہے رینگتے رینگتے اک آہ مجھے کھینچتی ہے اور اک خوف مرے جسم میں در آتا ہے خود بھی میں خاک زدہ خستہ بدن ہوں پہ مجھے اپنے کشکول کی حالت پہ ترس آتا ہے یک بیک ایک چراغ اپنی طرف کھینچتا ہوں اژدہا دیکھتا ہے اور لپٹ جاتا ...

    مزید پڑھیے

    جسم گھیر لیتی ہے پھر بھی زرد تنہائی

    جسم گھیر لیتی ہے پھر بھی زرد تنہائی تتلیوں میں دن گزرا جگنوؤں میں رات آئی چاندنی کی بانہوں میں گمرہی کا بچھو ہے اور اس کے دامن میں میرے دل کی بینائی دل کے سارے دروازے بند تھے اداسی پر کل پھر ایک رقاصہ کھڑکیوں سے گھس آئی اے متاع جسم و جاں چشم تر کی نوحہ خواں تو مری خوشی اپنے ...

    مزید پڑھیے

    قفل کھلیں گے اور مگرمچھوں کا منہ کھل جائے گا

    قفل کھلیں گے اور مگرمچھوں کا منہ کھل جائے گا کیا معلوم اس دل کے غار سے کیا کیا سامنے آئے گا دل کی جوانی ڈھل جائے گی ریت اپنے تھل جائے گی اور ہمارا عکس فضا میں سرخ دھواں بن جائے گا دیواروں کے بیچ پڑی ہے بند دریچے کی تصویر سوچ رہا ہوں اس کمرے میں چور کہاں سے آئے گا تم نے میری گن ...

    مزید پڑھیے

    کوئی ملال ہوں دکھ ہوں بتاؤ کیا ہوں میں

    کوئی ملال ہوں دکھ ہوں بتاؤ کیا ہوں میں دنوں کے بعد کسی شخص کو دکھا ہوں میں یہ کون پالتا پھرتا ہے ہجر کا آسیب مجھے بتایا گیا تھا کہ مر چکا ہوں میں جگر کے ہاتھ لپکتے ہیں آنکھ کی جانب کچھ ایسی طرز سے گریہ کناں ہوا ہوں میں کبھی کبھی مری آنکھیں جواب دیتی ہیں کبھی کبھی تجھے اتنا ...

    مزید پڑھیے

    برہنہ پا ہے بھٹکتی روحوں کو دودھ دیتی ہے پالتی ہے

    برہنہ پا ہے بھٹکتی روحوں کو دودھ دیتی ہے پالتی ہے پھر ان کے جسموں پہ قہقہے پھینکتی ہے چہرے اداستی ہے درون دل ایسا لگ رہا ہے کوئی بلا ہے بڑی بلا ہے جو سانس لیتی ہے آہ بھرتی ہے بات کرنے پہ مارتی ہے عجیب منطق کی پارسا ہے یہ ہجر کی شب یہ ہجر کی شب لپٹ کے سوتی ہے کس کے پہلو سے کس کے ...

    مزید پڑھیے

    رات جھٹکے سے مری نیند کھلی ٹوٹ گئی

    رات جھٹکے سے مری نیند کھلی ٹوٹ گئی کانچ کی چیز تھی ٹیبل سے گری ٹوٹ گئی شعبدہ‌ باز نے غائب کیا منظر سے مجھے بے گھری چھوٹ گئی اور چھڑی ٹوٹ گئی خامشی نام کی اک شے ہے مرے سینے میں تو مجھے ہاتھ لگا دیکھ ابھی ٹوٹ گئی قہقہہ دائمی تھا میرا مرے پاس رہا ماتمی چپ جو مری نام کی تھی ٹوٹ ...

    مزید پڑھیے

    درد تیرا تھا ترے یار سے لگ کر رویا

    درد تیرا تھا ترے یار سے لگ کر رویا یعنی بیمار تھا بیمار سے لگ کر رویا سخت کہرام زدہ شخص تھا میرا ہمدرد یوں لگا جیسے میں بازار سے لگ کر رویا چار سو پھیل گیا زرد اداسی کا حصار کوئی در سے کوئی دیوار سے لگ کر رویا کس نے بھڑکائی مرے جسم میں تسلیم کی آگ کون مجھ میں ترے انکار سے لگ کر ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں میں چند خواب نما تیر گڑ گئے

    آنکھوں میں چند خواب نما تیر گڑ گئے بہتے لہو کے ڈر سے پپوٹے سکڑ گئے میں آگ کے قریب سے گزرا نہ تھا کبھی ٹھنڈک کی نرم دھوپ سے دھاگے ادھڑ گئے کچھ بیڑیوں نے خستہ کیا جسم و جان کو منظر تک آتے آتے مرے پاؤں جھڑ گئے کیسی دلیلیں کیسی مناجات کچھ نہیں تجھ سے بچھڑنا تھا جنہیں خود سے بچھڑ ...

    مزید پڑھیے

    ڈرا رہی تھی مجھے اور ڈر لیا میں نے

    ڈرا رہی تھی مجھے اور ڈر لیا میں نے پھر ایک روز محبت کا سر لیا میں نے کسی سے مانگی مسلسل رسد اذیت کی پھر اپنے سائے کو دیوار کر لیا میں نے پہن رہے تھے کسی غم کا پیرہن کچھ لوگ اگرچہ مہنگا پڑا مجھ کو پر لیا میں نے بغیر اداسی مناسب نہیں تھا گھر جانا یہ انتظام اسے چھو کے کر لیا میں ...

    مزید پڑھیے

    درون خواب کوئی شکل مسکراتی ہے

    درون خواب کوئی شکل مسکراتی ہے میں چپ رہوں تو مرے ساتھ گنگناتی ہے قضا سے الجھے ہوئے سوگوار ہاتھوں میں ہمارے نام کی مہندی لگائی جاتی ہے یہ رخصتی کا سمے بھی عجب ہے آخر شب کہ چوڑیوں کی کھنک اور بڑھتی جاتی ہے جمال اور کسی کا ہے میرے چہرے پر بدن میں اور کوئی روح تلملاتی ہے یہ رات ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3