برہنہ پا ہے بھٹکتی روحوں کو دودھ دیتی ہے پالتی ہے

برہنہ پا ہے بھٹکتی روحوں کو دودھ دیتی ہے پالتی ہے
پھر ان کے جسموں پہ قہقہے پھینکتی ہے چہرے اداستی ہے


درون دل ایسا لگ رہا ہے کوئی بلا ہے بڑی بلا ہے
جو سانس لیتی ہے آہ بھرتی ہے بات کرنے پہ مارتی ہے


عجیب منطق کی پارسا ہے یہ ہجر کی شب یہ ہجر کی شب
لپٹ کے سوتی ہے کس کے پہلو سے کس کے پہلو میں جاگتی ہے


میں خواب کو چیرنے کا خنجر چھپا کے بستر پہ لیٹتا ہوں
پتہ نہیں کس کی مخبری پر یہ رات جیبیں کھنگالتی ہے


ہمارے پاؤں بھی جھڑ رہے ہیں قیامت قید زندگی میں
تمہاری آہوں کی شعلگی بھی ہماری زنجیر کاٹتی ہے


دھڑام سے گر پڑی تھی مجھ پر عجیب ہیئت کی سر کٹی روح
یہ فاحشہ اب نہ سو رہی ہے نہ اونگھتی ہے نہ کھانستی ہے