اسامہ خالد کے تمام مواد

24 غزل (Ghazal)

    کبھی ہوتا ہے پریشاں کبھی شرماتا ہے

    کبھی ہوتا ہے پریشاں کبھی شرماتا ہے آئینہ میرے خد و خال سے گھبراتا ہے رینگتے رینگتے اک آہ مجھے کھینچتی ہے اور اک خوف مرے جسم میں در آتا ہے خود بھی میں خاک زدہ خستہ بدن ہوں پہ مجھے اپنے کشکول کی حالت پہ ترس آتا ہے یک بیک ایک چراغ اپنی طرف کھینچتا ہوں اژدہا دیکھتا ہے اور لپٹ جاتا ...

    مزید پڑھیے

    جسم گھیر لیتی ہے پھر بھی زرد تنہائی

    جسم گھیر لیتی ہے پھر بھی زرد تنہائی تتلیوں میں دن گزرا جگنوؤں میں رات آئی چاندنی کی بانہوں میں گمرہی کا بچھو ہے اور اس کے دامن میں میرے دل کی بینائی دل کے سارے دروازے بند تھے اداسی پر کل پھر ایک رقاصہ کھڑکیوں سے گھس آئی اے متاع جسم و جاں چشم تر کی نوحہ خواں تو مری خوشی اپنے ...

    مزید پڑھیے

    قفل کھلیں گے اور مگرمچھوں کا منہ کھل جائے گا

    قفل کھلیں گے اور مگرمچھوں کا منہ کھل جائے گا کیا معلوم اس دل کے غار سے کیا کیا سامنے آئے گا دل کی جوانی ڈھل جائے گی ریت اپنے تھل جائے گی اور ہمارا عکس فضا میں سرخ دھواں بن جائے گا دیواروں کے بیچ پڑی ہے بند دریچے کی تصویر سوچ رہا ہوں اس کمرے میں چور کہاں سے آئے گا تم نے میری گن ...

    مزید پڑھیے

    کوئی ملال ہوں دکھ ہوں بتاؤ کیا ہوں میں

    کوئی ملال ہوں دکھ ہوں بتاؤ کیا ہوں میں دنوں کے بعد کسی شخص کو دکھا ہوں میں یہ کون پالتا پھرتا ہے ہجر کا آسیب مجھے بتایا گیا تھا کہ مر چکا ہوں میں جگر کے ہاتھ لپکتے ہیں آنکھ کی جانب کچھ ایسی طرز سے گریہ کناں ہوا ہوں میں کبھی کبھی مری آنکھیں جواب دیتی ہیں کبھی کبھی تجھے اتنا ...

    مزید پڑھیے

    برہنہ پا ہے بھٹکتی روحوں کو دودھ دیتی ہے پالتی ہے

    برہنہ پا ہے بھٹکتی روحوں کو دودھ دیتی ہے پالتی ہے پھر ان کے جسموں پہ قہقہے پھینکتی ہے چہرے اداستی ہے درون دل ایسا لگ رہا ہے کوئی بلا ہے بڑی بلا ہے جو سانس لیتی ہے آہ بھرتی ہے بات کرنے پہ مارتی ہے عجیب منطق کی پارسا ہے یہ ہجر کی شب یہ ہجر کی شب لپٹ کے سوتی ہے کس کے پہلو سے کس کے ...

    مزید پڑھیے

تمام

4 نظم (Nazm)

    شب شکست

    بارہویں مرتبہ موت کا خواب تکمیل تک آتے آتے کہیں رہ گیا ہے مجھے کوئی زخموں کے ٹانکے لگانا سکھا دے تو میں اپنا چمڑا اسے دان کر دوں گا پھر چاہے وہ اس کے جوتے بنائے یا اپنی بلاؤں کا صدقہ اتارے اگر دیوتاؤں میں جھگڑا ہوا اور تم اس زمیں پر کسی ان سنے قہقہے کے شکم سے بر آمد ہوئے تو میں ...

    مزید پڑھیے

    ساحلوں پر بہت گندگی ہے

    سمندر کی لہروں میں لٹکے لبادے سا لاغر بدن یہ ہینگر پہ خودکشی کا سرہانا لگا کر نصیر اور زیرک کی نظمیں کسی رائیگانی کے زیر اثر پڑھ رہا ہے لپٹتی جھپٹتی شرارت سے بھرپور لہروں کا پاؤں بھگونا کسی بدشگونی کی جانب اشارہ نہیں مجھ میں ایسا سمندر ہے جس کا کنارہ نہیں روشنی کو چھوتی ہوئی ...

    مزید پڑھیے

    میں وہی ہوں

    تری سرمئی آنکھ سے بہنے والا سیہ اشک جس نے ملال اوڑھ کر تیری تکمیل کی میں نے جو بھی کیا اپنے اندر کا وحشی جگا کر ترے سامنے سر بہ زانو کیا یا اداسی کے جبڑے سے چھینی ہوئی رنج کی اس غضب ناک خوراک سے تیرا دوزخ بھرا تیری تکمیل کی اب مجھے بھی اذیت کی بابت میں کوئی ستارہ بدن چاہیے اپنے ...

    مزید پڑھیے

    محسوس کرنا

    مجھے حسرت ہے میرا نظم کردہ فلسفہ تم کو سمجھ آئے تمہیں یہ فلسفہ باور کرانے کے لیے میرے سوا افلاک سے اب کوئی بھی آدم نہیں گرنا تمہارے جسم سے مجھ تک جو دوری ہے تمہیں معلوم ہو یہ ایک تھیوری ہے آدم نام کا دھبا زمین و آسماں کا فاصلہ طے کر کے تم کو صرف اتنا بولنے آیا ہوں سن لو مجھے آنکھوں ...

    مزید پڑھیے