آنکھوں میں چند خواب نما تیر گڑ گئے
آنکھوں میں چند خواب نما تیر گڑ گئے
بہتے لہو کے ڈر سے پپوٹے سکڑ گئے
میں آگ کے قریب سے گزرا نہ تھا کبھی
ٹھنڈک کی نرم دھوپ سے دھاگے ادھڑ گئے
کچھ بیڑیوں نے خستہ کیا جسم و جان کو
منظر تک آتے آتے مرے پاؤں جھڑ گئے
کیسی دلیلیں کیسی مناجات کچھ نہیں
تجھ سے بچھڑنا تھا جنہیں خود سے بچھڑ گئے
مانگی نہ تھی دعا کبھی میں نے پھر ایک شب
اٹھنے کی دیر تھی کہ مرے ہاتھ جھڑ گئے