درون خواب کوئی شکل مسکراتی ہے
درون خواب کوئی شکل مسکراتی ہے
میں چپ رہوں تو مرے ساتھ گنگناتی ہے
قضا سے الجھے ہوئے سوگوار ہاتھوں میں
ہمارے نام کی مہندی لگائی جاتی ہے
یہ رخصتی کا سمے بھی عجب ہے آخر شب
کہ چوڑیوں کی کھنک اور بڑھتی جاتی ہے
جمال اور کسی کا ہے میرے چہرے پر
بدن میں اور کوئی روح تلملاتی ہے
یہ رات سہمی سسکتی ہوئی دلہن کی طرح
لپٹتی جاتی ہے شرمندہ ہوتی جاتی ہے