درد تیرا تھا ترے یار سے لگ کر رویا
درد تیرا تھا ترے یار سے لگ کر رویا
یعنی بیمار تھا بیمار سے لگ کر رویا
سخت کہرام زدہ شخص تھا میرا ہمدرد
یوں لگا جیسے میں بازار سے لگ کر رویا
چار سو پھیل گیا زرد اداسی کا حصار
کوئی در سے کوئی دیوار سے لگ کر رویا
کس نے بھڑکائی مرے جسم میں تسلیم کی آگ
کون مجھ میں ترے انکار سے لگ کر رویا
نیند بے چین تھی بیمار کی آنکھوں کے لیے
خواب کا زخم عزادار سے لگ کر رویا