قفل کھلیں گے اور مگرمچھوں کا منہ کھل جائے گا

قفل کھلیں گے اور مگرمچھوں کا منہ کھل جائے گا
کیا معلوم اس دل کے غار سے کیا کیا سامنے آئے گا


دل کی جوانی ڈھل جائے گی ریت اپنے تھل جائے گی
اور ہمارا عکس فضا میں سرخ دھواں بن جائے گا


دیواروں کے بیچ پڑی ہے بند دریچے کی تصویر
سوچ رہا ہوں اس کمرے میں چور کہاں سے آئے گا


تم نے میری گن دیکھی ہے اور بلٹ سے واقف ہو
اس کا ذکر زباں پر لاؤ آج پتہ چل جائے گا


تیر اندازی کرتے کرتے سب کو نیند آ جائے گی
اور سپہ سالار کا بیٹا ٹینشن سے مر جائے گا