اسامہ خالد کی نظم

    شب شکست

    بارہویں مرتبہ موت کا خواب تکمیل تک آتے آتے کہیں رہ گیا ہے مجھے کوئی زخموں کے ٹانکے لگانا سکھا دے تو میں اپنا چمڑا اسے دان کر دوں گا پھر چاہے وہ اس کے جوتے بنائے یا اپنی بلاؤں کا صدقہ اتارے اگر دیوتاؤں میں جھگڑا ہوا اور تم اس زمیں پر کسی ان سنے قہقہے کے شکم سے بر آمد ہوئے تو میں ...

    مزید پڑھیے

    ساحلوں پر بہت گندگی ہے

    سمندر کی لہروں میں لٹکے لبادے سا لاغر بدن یہ ہینگر پہ خودکشی کا سرہانا لگا کر نصیر اور زیرک کی نظمیں کسی رائیگانی کے زیر اثر پڑھ رہا ہے لپٹتی جھپٹتی شرارت سے بھرپور لہروں کا پاؤں بھگونا کسی بدشگونی کی جانب اشارہ نہیں مجھ میں ایسا سمندر ہے جس کا کنارہ نہیں روشنی کو چھوتی ہوئی ...

    مزید پڑھیے

    میں وہی ہوں

    تری سرمئی آنکھ سے بہنے والا سیہ اشک جس نے ملال اوڑھ کر تیری تکمیل کی میں نے جو بھی کیا اپنے اندر کا وحشی جگا کر ترے سامنے سر بہ زانو کیا یا اداسی کے جبڑے سے چھینی ہوئی رنج کی اس غضب ناک خوراک سے تیرا دوزخ بھرا تیری تکمیل کی اب مجھے بھی اذیت کی بابت میں کوئی ستارہ بدن چاہیے اپنے ...

    مزید پڑھیے

    محسوس کرنا

    مجھے حسرت ہے میرا نظم کردہ فلسفہ تم کو سمجھ آئے تمہیں یہ فلسفہ باور کرانے کے لیے میرے سوا افلاک سے اب کوئی بھی آدم نہیں گرنا تمہارے جسم سے مجھ تک جو دوری ہے تمہیں معلوم ہو یہ ایک تھیوری ہے آدم نام کا دھبا زمین و آسماں کا فاصلہ طے کر کے تم کو صرف اتنا بولنے آیا ہوں سن لو مجھے آنکھوں ...

    مزید پڑھیے