نثار راہی کے تمام مواد

8 غزل (Ghazal)

    فضا میں نغمگی کچھ کم ہوئی ہے

    فضا میں نغمگی کچھ کم ہوئی ہے ہر اک لب پر ہنسی کچھ کم ہوئی ہے یہ مانا ٹوٹ کر برسے ہیں بادل مگر کیا تشنگی کچھ کم ہوئی ہے اندھیرا جب سے پھیلا ہے دلوں میں مسلسل روشنی کچھ کم ہوئی ہے وہی باتیں وہی چہرا ہے لیکن غزل میں تازگی کچھ کم ہوئی ہے تمہارے دل سے میرے دل کی دوری خیالوں میں سہی ...

    مزید پڑھیے

    بدن سے روح کے رشتے کا دھیان ہوتے ہوئے

    بدن سے روح کے رشتے کا دھیان ہوتے ہوئے میں در بدر ہی پھرا ہوں مکان ہوتے ہوئے یہ کون آیا کہ چہرے پہ آ گئی رونق جنم جنم کی مسلسل تھکان ہوتے ہوئے جھلس رہے ہیں بدن کیسے تیز گرمی سے ہمارے سر پہ کئی سائبان ہوتے ہوئے پہنچ ہی جاؤں گا فردا کی خواب گاہوں میں تمہاری یاد کا دھندلا نشان ہوتے ...

    مزید پڑھیے

    دیکھیے تو شجر بھی لگتا ہے

    دیکھیے تو شجر بھی لگتا ہے چھونا چاہیں تو ڈر بھی لگتا ہے تیری یادیں بھی ساتھ رہتی ہیں اور تنہا سفر بھی لگتا ہے موسموں کا قصور ہے ورنہ شاخ پر تو ثمر بھی لگتا ہے کوئی آہٹ کوئی نشان نہیں کیوں تمہارا گزر بھی لگتا ہے ان کے آنے سے یہ ہوا معلوم اک پیمبر بشر بھی لگتا ہے اپنے الفاظ کو ...

    مزید پڑھیے

    لفظ نکلا زبان سے باہر

    لفظ نکلا زبان سے باہر تیر جیسے کمان سے باہر میرے وہم و گمان سے باہر تیری عظمت بیان سے باہر ساری دنیا اسی میں رہتی تھی میں رہا جس مکان سے باہر سب کو منظور کس طرح ہوتا فیصلہ تھا گمان سے باہر ذہن و دل پر حکومتیں جس کی ہو گیا کیسے دھیان سے باہر راستے منتظر ہیں برسوں سے آئے کوئی ...

    مزید پڑھیے

    کبھی منزل کبھی رستہ سمجھ کر

    کبھی منزل کبھی رستہ سمجھ کر وہ ٹھہرا ہے مجھے تنہا سمجھ کر کیا سیراب اک صحرا کو اس نے جسے چھوڑ آئے تھے قطرہ سمجھ کر نہ جانے شکل کس کی ڈھونڈھتا ہوں ہر اک چہرے کو آئینہ سمجھ کر صدائیں دے رہا ہے پھر سے موسم مرے احساس کو زندہ سمجھ کر اڑانا چاہتے ہو تم شجر کو فقط ٹوٹا ہوا پتا سمجھ ...

    مزید پڑھیے

تمام

4 نظم (Nazm)

    ترقی

    زندگی میں اندھیرا ہر شام کے بعد سویرا لوگ کہتے ہیں میری زندگی کی شام بھی کبھی نہ کبھی دھیرے دھیرے سویرے تک ضرور پہنچے گی مگر سوچتا ہوں شام سے صبح کے بیچ مجھے نیند نہ آ جائے

    مزید پڑھیے

    امید

    صداؤں کے جزیرے ڈوب جاتے ہیں خموشی کے سمندر میں کوئی آواز لیکن گونجتی ہے جسم کی اندھی سرنگوں میں نہ جانے کتنے خوابوں کے دریچے اس نے کھولے ہیں سنائے انگنت قصے کبھی اس نے شعاعوں سے اندھیروں کو کیا روشن کھلائے ہیں کئی گلشن یہی آواز لفظوں کے ہر اک سانچے میں ڈھل جائے فضاؤں میں بکھر ...

    مزید پڑھیے

    خالی وقت

    روز بھرتا ہوں خالی وقت میں کچھ یادیں کچھ وعدے کچھ ارادے پھر بھی مجھے بھر کر ہو جاتا ہے خود خالی وقت

    مزید پڑھیے

    شکل

    پڑھنے کے بعد پھر سے ہو گیا کورا کاغذ

    مزید پڑھیے