بدن سے روح کے رشتے کا دھیان ہوتے ہوئے
بدن سے روح کے رشتے کا دھیان ہوتے ہوئے
میں در بدر ہی پھرا ہوں مکان ہوتے ہوئے
یہ کون آیا کہ چہرے پہ آ گئی رونق
جنم جنم کی مسلسل تھکان ہوتے ہوئے
جھلس رہے ہیں بدن کیسے تیز گرمی سے
ہمارے سر پہ کئی سائبان ہوتے ہوئے
پہنچ ہی جاؤں گا فردا کی خواب گاہوں میں
تمہاری یاد کا دھندلا نشان ہوتے ہوئے
عنایتیں ہوئیں موسم کی بارہا مجھ پر
اسے بھی دیکھوں کبھی مہربان ہوتے ہوئے
زمین فکر سے رشتہ مرا کہاں ٹوٹا
خیال و خواب کی اونچی اڑان ہوتے ہوئے
نگاہیں دیکھنے لگتی ہیں راستوں کی طرف
سفر میں کتنا ہی منزل کا دھیان ہوتے ہوئے
قدم قدم پہ ہیں لشکر محافظوں کے نثارؔ
ہمارے شہر میں امن و امان ہوتے ہوئے