امید
صداؤں کے جزیرے
ڈوب جاتے ہیں
خموشی کے سمندر میں
کوئی آواز لیکن گونجتی ہے
جسم کی اندھی سرنگوں میں
نہ جانے کتنے خوابوں کے دریچے اس نے کھولے ہیں
سنائے انگنت قصے
کبھی اس نے شعاعوں سے اندھیروں کو کیا روشن
کھلائے ہیں کئی گلشن
یہی آواز
لفظوں کے ہر اک سانچے میں ڈھل جائے
فضاؤں میں بکھر جائے
کسی صورت خموشی کا مگر چہرہ اتر جائے