لفظ نکلا زبان سے باہر

لفظ نکلا زبان سے باہر
تیر جیسے کمان سے باہر


میرے وہم و گمان سے باہر
تیری عظمت بیان سے باہر


ساری دنیا اسی میں رہتی تھی
میں رہا جس مکان سے باہر


سب کو منظور کس طرح ہوتا
فیصلہ تھا گمان سے باہر


ذہن و دل پر حکومتیں جس کی
ہو گیا کیسے دھیان سے باہر


راستے منتظر ہیں برسوں سے
آئے کوئی مکان سے باہر


سب سے پہلے وہی بکے ہیں نثارؔ
جو پڑے تھے دکان سے باہر