فضا میں نغمگی کچھ کم ہوئی ہے

فضا میں نغمگی کچھ کم ہوئی ہے
ہر اک لب پر ہنسی کچھ کم ہوئی ہے


یہ مانا ٹوٹ کر برسے ہیں بادل
مگر کیا تشنگی کچھ کم ہوئی ہے


اندھیرا جب سے پھیلا ہے دلوں میں
مسلسل روشنی کچھ کم ہوئی ہے


وہی باتیں وہی چہرا ہے لیکن
غزل میں تازگی کچھ کم ہوئی ہے


تمہارے دل سے میرے دل کی دوری
خیالوں میں سہی کچھ کم ہوئی ہے


اسے شدت سے اب بھی چاہتا ہوں
مگر دیوانگی کچھ کم ہوئی ہے


نثارؔ آواز جب بھی دی ہوا نے
گلوں کی بے رخی کچھ کم ہوئی ہے