نثار راہی کی نظم

    ترقی

    زندگی میں اندھیرا ہر شام کے بعد سویرا لوگ کہتے ہیں میری زندگی کی شام بھی کبھی نہ کبھی دھیرے دھیرے سویرے تک ضرور پہنچے گی مگر سوچتا ہوں شام سے صبح کے بیچ مجھے نیند نہ آ جائے

    مزید پڑھیے

    امید

    صداؤں کے جزیرے ڈوب جاتے ہیں خموشی کے سمندر میں کوئی آواز لیکن گونجتی ہے جسم کی اندھی سرنگوں میں نہ جانے کتنے خوابوں کے دریچے اس نے کھولے ہیں سنائے انگنت قصے کبھی اس نے شعاعوں سے اندھیروں کو کیا روشن کھلائے ہیں کئی گلشن یہی آواز لفظوں کے ہر اک سانچے میں ڈھل جائے فضاؤں میں بکھر ...

    مزید پڑھیے

    خالی وقت

    روز بھرتا ہوں خالی وقت میں کچھ یادیں کچھ وعدے کچھ ارادے پھر بھی مجھے بھر کر ہو جاتا ہے خود خالی وقت

    مزید پڑھیے

    شکل

    پڑھنے کے بعد پھر سے ہو گیا کورا کاغذ

    مزید پڑھیے