نثار راہی کی غزل

    فضا میں نغمگی کچھ کم ہوئی ہے

    فضا میں نغمگی کچھ کم ہوئی ہے ہر اک لب پر ہنسی کچھ کم ہوئی ہے یہ مانا ٹوٹ کر برسے ہیں بادل مگر کیا تشنگی کچھ کم ہوئی ہے اندھیرا جب سے پھیلا ہے دلوں میں مسلسل روشنی کچھ کم ہوئی ہے وہی باتیں وہی چہرا ہے لیکن غزل میں تازگی کچھ کم ہوئی ہے تمہارے دل سے میرے دل کی دوری خیالوں میں سہی ...

    مزید پڑھیے

    بدن سے روح کے رشتے کا دھیان ہوتے ہوئے

    بدن سے روح کے رشتے کا دھیان ہوتے ہوئے میں در بدر ہی پھرا ہوں مکان ہوتے ہوئے یہ کون آیا کہ چہرے پہ آ گئی رونق جنم جنم کی مسلسل تھکان ہوتے ہوئے جھلس رہے ہیں بدن کیسے تیز گرمی سے ہمارے سر پہ کئی سائبان ہوتے ہوئے پہنچ ہی جاؤں گا فردا کی خواب گاہوں میں تمہاری یاد کا دھندلا نشان ہوتے ...

    مزید پڑھیے

    دیکھیے تو شجر بھی لگتا ہے

    دیکھیے تو شجر بھی لگتا ہے چھونا چاہیں تو ڈر بھی لگتا ہے تیری یادیں بھی ساتھ رہتی ہیں اور تنہا سفر بھی لگتا ہے موسموں کا قصور ہے ورنہ شاخ پر تو ثمر بھی لگتا ہے کوئی آہٹ کوئی نشان نہیں کیوں تمہارا گزر بھی لگتا ہے ان کے آنے سے یہ ہوا معلوم اک پیمبر بشر بھی لگتا ہے اپنے الفاظ کو ...

    مزید پڑھیے

    لفظ نکلا زبان سے باہر

    لفظ نکلا زبان سے باہر تیر جیسے کمان سے باہر میرے وہم و گمان سے باہر تیری عظمت بیان سے باہر ساری دنیا اسی میں رہتی تھی میں رہا جس مکان سے باہر سب کو منظور کس طرح ہوتا فیصلہ تھا گمان سے باہر ذہن و دل پر حکومتیں جس کی ہو گیا کیسے دھیان سے باہر راستے منتظر ہیں برسوں سے آئے کوئی ...

    مزید پڑھیے

    کبھی منزل کبھی رستہ سمجھ کر

    کبھی منزل کبھی رستہ سمجھ کر وہ ٹھہرا ہے مجھے تنہا سمجھ کر کیا سیراب اک صحرا کو اس نے جسے چھوڑ آئے تھے قطرہ سمجھ کر نہ جانے شکل کس کی ڈھونڈھتا ہوں ہر اک چہرے کو آئینہ سمجھ کر صدائیں دے رہا ہے پھر سے موسم مرے احساس کو زندہ سمجھ کر اڑانا چاہتے ہو تم شجر کو فقط ٹوٹا ہوا پتا سمجھ ...

    مزید پڑھیے

    لفظوں سے تصویر بناتے رہتے ہیں

    لفظوں سے تصویر بناتے رہتے ہیں جیسے تیسے جی بہلاتے رہتے ہیں قطرے میں دریا کا جب دیدار ہوا ہم دامن کے داغ دکھاتے رہتے ہیں ان سے شاید جنم جنم کا رشتہ ہے پیڑ پرندے ہمیں بلاتے رہتے ہیں جب سے چہرا دیکھا ان کی آنکھوں میں آئینے سے آنکھ چراتے رہتے ہیں بارش پنچھی خوشبو جھرنا پھول ...

    مزید پڑھیے

    تمہیں دامن بھگونا چاہئے تھا

    تمہیں دامن بھگونا چاہئے تھا کبھی تو کھل کے رونا چاہئے تھا نگاہوں میں بھرے ہیں خواب کتنے کوئی منظر بھی ہونا چاہئے تھا تمہیں لڑیوں میں یارو آنسوؤں کی خیالوں کو پرونا چاہئے تھا جو دل میں ہے اسے پانی کی خواہش تو پہلے خود کو کھونا چاہئے تھا بچایا ہے اگر اس نے بھنور میں کنارے پر ...

    مزید پڑھیے

    راہ میں ایک ستارا ہی بہت ہوتا ہے

    راہ میں ایک ستارا ہی بہت ہوتا ہے یاد کا اس کی سہارا ہی بہت ہوتا ہے روبرو ملنے کی اس سے کبھی ہمت نہ ہوئی خواب میں اس کا نظارہ ہی بہت ہوتا ہے دل کی گہرائی نگاہوں سے زیادہ ہے مگر ڈوبنا ہو تو کنارا ہی بہت ہوتا ہے بے خبر اتنے بھی موسم سے پرندے کیوں تھے جب ہواؤں کا اشارہ ہی بہت ہوتا ...

    مزید پڑھیے