لفظوں سے تصویر بناتے رہتے ہیں
لفظوں سے تصویر بناتے رہتے ہیں
جیسے تیسے جی بہلاتے رہتے ہیں
قطرے میں دریا کا جب دیدار ہوا
ہم دامن کے داغ دکھاتے رہتے ہیں
ان سے شاید جنم جنم کا رشتہ ہے
پیڑ پرندے ہمیں بلاتے رہتے ہیں
جب سے چہرا دیکھا ان کی آنکھوں میں
آئینے سے آنکھ چراتے رہتے ہیں
بارش پنچھی خوشبو جھرنا پھول چراغ
ہم کو کیا کیا یاد دلاتے رہتے ہیں
ان کے دل میں خواہش کیوں ہو ساحل کی
طوفانوں سے جو ٹکراتے رہتے ہیں
جن سے پھل اور سایہ ملنا مشکل ہے
ہم ایسے بھی پیڑ لگاتے رہتے ہیں
نقش پا سے بچ کر چلتا ہوں اکثر
یہ رستہ دشوار بناتے رہتے ہیں
اک نہ اک دن جب بجھنا ہے سب کو نثارؔ
کیوں آندھی سے لوگ ڈراتے رہتے ہیں