راہ میں ایک ستارا ہی بہت ہوتا ہے

راہ میں ایک ستارا ہی بہت ہوتا ہے
یاد کا اس کی سہارا ہی بہت ہوتا ہے


روبرو ملنے کی اس سے کبھی ہمت نہ ہوئی
خواب میں اس کا نظارہ ہی بہت ہوتا ہے


دل کی گہرائی نگاہوں سے زیادہ ہے مگر
ڈوبنا ہو تو کنارا ہی بہت ہوتا ہے


بے خبر اتنے بھی موسم سے پرندے کیوں تھے
جب ہواؤں کا اشارہ ہی بہت ہوتا ہے


ہو گیا عشق سے سونے میں سہاگا ورنہ
صرف تقدیر کا مارا ہی بہت ہوتا ہے


اعتماد اس نے کہاں مجھ پہ کیا ہے ورنہ
ایک تنکے کا سہارا ہی بہت ہوتا ہے


انتظار آج بھی کیوں چاند کا کرتے ہو نثارؔ
جب اندھیرے میں ستارا ہی بہت ہوتا ہے