نصر غزالی کی غزل

    قدم قدم پہ فریب ثبات رکھ دینا

    قدم قدم پہ فریب ثبات رکھ دینا بشر کے نام پہ کل کائنات رکھ دینا ہوائے درد کی زد پر حیات رکھ دینا نہال زخم ہرا شش جہات رکھ دینا لپیٹنا مجھے انفاس کے سلاسل میں اور اس کے بعد کئی حادثات رکھ دینا مگر یہ کیا کہ چھری پر اذیت شب کی کسی کی ہو کہ نہ ہو میری ذات رکھ دینا نہ نیند آنکھوں میں ...

    مزید پڑھیے

    حال ماضی کا سلسلہ کاٹے

    حال ماضی کا سلسلہ کاٹے وقت کی وقت ہر صدا کاٹے لمحہ لمحے کا یوں گلا کاٹے سانپ کو جیسے نیولا کاٹے گاؤں کا شہر سلسلہ کاٹے مہر و اخلاص کا گلا کاٹے اس طرح کاٹتی کہاں تلوار جس طرح خنجر انا کاٹے زیست کی تنگ کوٹھری اور میں جیسے مجرم کوئی سزا کاٹے کس تعلق کی ہے سزا آخر خود مجھے آج گھر ...

    مزید پڑھیے

    رشتہ بدن کا ختم ہوا اپنی جان سے

    رشتہ بدن کا ختم ہوا اپنی جان سے ملتی ہے شکل شہر کی میرے مکان سے خواہش کو اس کی جیسے کوئی دخل ہی نہ تھا یوں اس نے مجھ کو پھینک دیا آسمان سے کیسی لگی ہے آگ کہ بجھتی نہیں کبھی اک سلسلہ ہے کب سے دھویں کا چٹان سے منہ سے جو بات نکلی وہ پہنچی نگر نگر لوٹا نہ پھر وہ تیر جو نکلا کمان ...

    مزید پڑھیے

    ہم کیا کہ حد نظر تک سراب کی صورت

    ہم کیا کہ حد نظر تک سراب کی صورت نہ خاک خاک نہ اب آب آب کی صورت کھلا تھا میں بھی کبھی اک گلاب کی صورت تمام عمر جلا آفتاب کی صورت کنارہ کاٹ رہا ہوں وجود کا اپنے پٹک رہا ہوں میں سر موج آب کی صورت زباں جو سوکھ رہی ہے تو کچھ سبب بھی ہے سمندروں میں رہا ہوں حباب کی صورت برون شہر ہی کیا ...

    مزید پڑھیے

    رخ بہار پہ عکس خزاں بھی کتنی دیر

    رخ بہار پہ عکس خزاں بھی کتنی دیر مخالفت پہ تلا آسماں بھی کتنی دیر کسی کا نام کسی کا نشاں بھی کتنی دیر ہو جسم خاک تو پھر استخواں بھی کتنی دیر شکست و ریخت کی اس منزل پریشاں میں یقیں کی عمر بھی کتنی گماں بھی کتنی دیر بندھا ہے عہد جو تیغ و گلو کے بیچ تو پھر لرزتی کانپتی ننھی سی جاں ...

    مزید پڑھیے

    دن کی دہلیز پہ ٹھہرے ہوئے سائے بھی گئے

    دن کی دہلیز پہ ٹھہرے ہوئے سائے بھی گئے رات کیا آئی کہ اپنے بھی پرائے بھی گئے عکس تعبیر کا ابھرے یہ تمنا ہی رہی آئینے خواب کے آنکھوں کو دکھائے بھی گئے تہمت خوشۂ گندم ہے ابھی تک سر پر ہم اچھالے بھی گئے ہم کہ گرائے بھی گئے شجر درد کہ کل بھی تھا ہرا آج بھی ہے وقت کی دھوپ میں ہم گرچہ ...

    مزید پڑھیے

    اس قدر رسوائیوں کی گرم بازاری نہ تھی

    اس قدر رسوائیوں کی گرم بازاری نہ تھی تھی انا پسپا مگر ایسی بھی پسپائی نہ تھی تھی مگر محرومیوں کی یہ فراوانی نہ تھی آرزو کی کچی کلیوں کی یہ پامالی نہ تھی میں بھی آغاز سفر میں تم سے کچھ کم خوش نہ تھا یہ ہے انجام سفر مجھ کو بھی آگاہی نہ تھی تھی ابھی میری پلک جھپکے پہ دیکھا اور ...

    مزید پڑھیے

    برف‌ زار جاں کی تہہ میں کھولتے پانی کا ہے

    برف‌ زار جاں کی تہہ میں کھولتے پانی کا ہے جو بھی قصہ ہے لہو کی شعلہ سامانی کا ہے آسماں سے روشنی اتری بھی دھندلا بھی چکی نام روشن ہے تو بس ظلمت کی تابانی کا ہے ریگزار لب کہ ہر سو اگ رہی ہے تشنگی آنکھ میں منظر اچھلتے کودتے پانی کا ہے بے سبب ہرگز نہیں دست کرم کم کم ادھر اس کو ...

    مزید پڑھیے

    باہر باہر دیکھ چکا تو اب کچھ اپنے اندر دیکھ

    باہر باہر دیکھ چکا تو اب کچھ اپنے اندر دیکھ نظارے کا لطف یہی ہے الگ الگ ہر منظر دیکھ اوپر اوپر بہتا پانی نیچے نیچے آگ دبی جلتی بجھتی آگ کے اندر صحرا دیکھ سمندر دیکھ آگ پہ چلنا دار پہ چلنا دن کے نگر کا قصہ یہ شب کی کہانی یہ کہ بدن پر بے خوابی کی چادر دیکھ رستے بستے گھر ہی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    تعبیر جانتی ہے سر دار کیوں ہوئے

    تعبیر جانتی ہے سر دار کیوں ہوئے ہم خواب دیکھنے کے گنہ گار کیوں ہوئے بازار طوطا چشم سے لوٹو تو پوچھنا ہم بے مروتی کے خریدار کیوں ہوئے ہم پر عتاب دھوپ کا ہے تو سبب بھی ہے دشت الم میں سایۂ دیوار کیوں ہوئے احباب کی ہے بات کہیں تو کسے کہیں ہم سانپ پالنے کے گنہ گار کیوں ہوئے پل بھر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2