رشتہ بدن کا ختم ہوا اپنی جان سے

رشتہ بدن کا ختم ہوا اپنی جان سے
ملتی ہے شکل شہر کی میرے مکان سے


خواہش کو اس کی جیسے کوئی دخل ہی نہ تھا
یوں اس نے مجھ کو پھینک دیا آسمان سے


کیسی لگی ہے آگ کہ بجھتی نہیں کبھی
اک سلسلہ ہے کب سے دھویں کا چٹان سے


منہ سے جو بات نکلی وہ پہنچی نگر نگر
لوٹا نہ پھر وہ تیر جو نکلا کمان سے


پتھر کے نیچے دفن ہے ہر حرف گفتنی
اب صرف مصلحت کا ہے رشتہ زبان سے


تیرو لہو میں اپنے تو ممکن ہے خود کو پاؤ
دھلتا ہے صرف جسم ہی گنگا نہان سے