نصر غزالی کی غزل

    وہ خوف جاں تھا کہ لب کھولنا گوارا نہ تھا

    وہ خوف جاں تھا کہ لب کھولنا گوارا نہ تھا صدائیں سہمی کچھ ایسی سخن کا یارا نہ تھا تمام اپنے پرائے کٹے کٹے سے رہے چھری جو چمکی تو اس نے کسے پکارا نہ تھا رخ کماں تھا ادھر تیر کا نشانہ ادھر ہمارا دوست تو تھا اور مگر ہمارا نہ تھا رفو طلب نظر آتا ہے دیکھیے جس کو لباس جاں تو کبھی اتنا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2