قدم قدم پہ فریب ثبات رکھ دینا

قدم قدم پہ فریب ثبات رکھ دینا
بشر کے نام پہ کل کائنات رکھ دینا


ہوائے درد کی زد پر حیات رکھ دینا
نہال زخم ہرا شش جہات رکھ دینا


لپیٹنا مجھے انفاس کے سلاسل میں
اور اس کے بعد کئی حادثات رکھ دینا


مگر یہ کیا کہ چھری پر اذیت شب کی
کسی کی ہو کہ نہ ہو میری ذات رکھ دینا


نہ نیند آنکھوں میں آئے نہ خواب ہی آئے
جو دن ڈھلے تو پھر ایسی ہی رات رکھ دینا


نہ بوند بوند کو ترسوں کہ کربلا میں ہوں
نظر کے سامنے لیکن فرات رکھ دینا


یہی ہے لذت گفتار بات میں اپنی
کوئی خلاف طبیعت بھی بات رکھ دینا