حال ماضی کا سلسلہ کاٹے
حال ماضی کا سلسلہ کاٹے
وقت کی وقت ہر صدا کاٹے
لمحہ لمحے کا یوں گلا کاٹے
سانپ کو جیسے نیولا کاٹے
گاؤں کا شہر سلسلہ کاٹے
مہر و اخلاص کا گلا کاٹے
اس طرح کاٹتی کہاں تلوار
جس طرح خنجر انا کاٹے
زیست کی تنگ کوٹھری اور میں
جیسے مجرم کوئی سزا کاٹے
کس تعلق کی ہے سزا آخر
خود مجھے آج گھر مرا کاٹے
ہے کوئی جیوتشی کہیں ایسا
جو ہتھیلی پہ بھی لکھا کاٹے