باہر باہر دیکھ چکا تو اب کچھ اپنے اندر دیکھ

باہر باہر دیکھ چکا تو اب کچھ اپنے اندر دیکھ
نظارے کا لطف یہی ہے الگ الگ ہر منظر دیکھ


اوپر اوپر بہتا پانی نیچے نیچے آگ دبی
جلتی بجھتی آگ کے اندر صحرا دیکھ سمندر دیکھ


آگ پہ چلنا دار پہ چلنا دن کے نگر کا قصہ یہ
شب کی کہانی یہ کہ بدن پر بے خوابی کی چادر دیکھ


رستے بستے گھر ہی نہیں آباد ہے سارا شہر مگر
اک آسیبی سناٹا ہے اندر دیکھ کہ باہر دیکھ


گھر والے بیزار گھروں سے دلوں سے غائب دل داری
یہی تماشا اپنے گھر میں یہی تماشا گھر گھر دیکھ


کچھ کچھ آنکھ میں درد چھپائے کچھ کچھ دل میں ڈرتا سا
آس کی سوکھی شاخ پہ بیٹھا ایک پرندہ بے پر دیکھ


اپنا اپنا سر کاندھے پر سر پر اپنا اپنا بوجھ
دنیا گھر کا بوجھ اٹھائے مجھ کو دیکھ سراسر دیکھ